بیادگار تاج العرفان حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ و حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ؞؞؞؞؞؞خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کی مطبوعات کے آن لائن ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ آئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞

ہفتہ، 1 فروری، 2014

حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ

حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ 
ایک گم نام مگر باکمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل
از: طیب عثمانی ندوی
ریاست بہار ضلع اورنگ آباد میں ایک چھوٹی سی قدیم بستی ’سِملہ‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں ایک قدیم صوفی عثمانی خانوادہ آباد ہے۔ اس خانوادہ میں شروع ہی سے علماء، صوفیاء اور اہل دل بزرگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ سِملہ کے یہ تمام بزرگ عام طور پر خلوت نشیں اور اہل دل رہے ہیں۔ عبادت و ریاضت، ذکر و اشغال اور خموش رشد و ہدایت میں پوری زندگی مشغول رہے۔ معروف خانقاہی مراسم کی کوئی پابندی نہیں رہی، اسی مبارک خانوادہ میں ایک معروف شخصیت شیخ وقت، مرد درویش، مجاہد جلیل حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی پیدائش ہوئی۔ جنہوں نے اپنی درویشانہ زندگی اور خلوت نشینی کے باوجود زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحی کارنامے انجام دیے، علم و ادب، تصوف و احسان، اصلاح معاشرہ، سیاست و اجتماعیت گویا زندگی کے ہر شعبہ میں تعمیرو اصلاح کے نقوش ثبت کئے۔ اور مرجع خلائق ہوئے۔ آپ کی ولادت باسعادت، 9؍صفر المظفر 1307ھ بمقام سملہ ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب اڑتیسویں (38ویں) پشت میں، خلیفہ راشد ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی ذیِ النورین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اس خاندان کی قدر مشترک روحانیت رہی ہے۔ ذوق عبادت، تسبیح و تلاوت اور فکر آخرت اس کا نمایاں وصف رہا ہے۔ اسی دینی و روحانی ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں اور پروان چڑھے۔

خاندان کے قدیم روایت کے مطابق جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانیؒ نے بھی گھر پر ابتدائی اردو نوشت و خواند، قرآن مجید اور فارسی کی تعلیم مکمل کی۔ پھر جدید تعلیم کے لئے گیا شہر کے مشہور تعلیمی ادارہ ’’ہری داس سیمنری اسکول‘‘ (ٹاؤن اسکول، گیا) میں داخل کئے گئے، گیا سے مزید اعلیٰ انگریزی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جو ان دنوں ’’اینگلو محمڈن علی گڑھ کالج‘‘ کے نام سے مشہور تھا میں داخلہ لیا اور میٹرک تک تعلیم وہاں حاصل کی۔ اسی درمیان ’’تحریک ترک موالات‘‘ اور خلافت تحریک شروع ہوگئی۔ آپ بھی اپنے دینی و ملی اور قومی جوش و جذبہ کے باعث علی گڑھ کی انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر جنگ آزادی کی تحریک سے عملاً وابستہ ہوگئے۔ پھر جب مشرق (کلکتہ) کے مطلع صحافت سے ’’الہلال‘‘ طلوع ہوا تو آپ اس کے ادارہ میں انگریزی مترجم کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ ان دنوں مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار ’’الہلال‘‘ اہل علم مشاہیرو علماء و ادباء کا مرکز بن گیا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، خواجہ عبدالحئی، عبداللہ العمادی جیسے باکمال اہل علم ’الہلال ‘ کی مجلس ادارت میں شریک تھے۔ عرصہ تک الہلال سے وابستگی کے باعث، مولانا آزاد اور دیگر اہل علموں کی صحبت نے علمی و ادبی طور پر آپ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ جب الہلال سے وابستہ تھے، غالباً اسی زمانہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کی نظربندی کا واقعہ بھی پیش آیا اور انگریز حکومت نے مولانا آزاد کو رانچی میں نظر بند کر دیا۔ آپ چونکہ شروع ہی سے مولانا آزاد کی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ کے رفیق و دم ساز اور محرم راز رہے اس لئے رانچی کی نظر بندی کے زمانہ میں بھی آپ رانچی میں مولانا آزاد کے رفیق و معاون بن گئے۔ جب وہاں مولانا آزاد نے ’’مدرسہ اسلامیہ ‘‘ کا قیام عمل میں لایا، جو آج بھی وہاں موجود ہے تو آپ اس مدرسہ میں مدرس اول کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ مولانا آزاد کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد اپنے فطری دینی ذوق اور تصوف و احسان سے خاندانی شغف کے باعث، خالص دینی مطالعہ اور روحانی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ میں قیام فرمایا۔ جس زمانہ میں آپ پھلواری شریف میں قیام پذیر ہوکر علمی و دینی مطالعہ میں مشغول و منہمک تھے، اسی زمانہ میں، خانقاہ مجیبہ پھلواری شریف سے شائع ہونے والے ایک اہم دینی و علمی ماہنامہ ’’معارف‘‘ کے مدیر رہے، جو آپ کی علمی گہرائی، دینی بصیرت اور ادبی صلاحیتوں کی روشن یادگار ہے۔ اس طرح علی گڑھ کی تعلیم کے اختتام کے بعد آزادانہ طور پر اپنی محنت اور ذوق مطالعہ سے اپنی دینی تعلیم کی تکمیل فرمائی۔

حضرت شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی زندگی کے احوال و واقعات 1912ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رفاقت اور ان کے اخبار الہلال کی صحافت سے 1947ء کی جنگ آزادی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی ذات والا صفات اس پورے دور کی دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی تحریکات کی تاریخ ہے۔ 15؍اگست 1947ء کو جب ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا، اس سے ایک ماہ پہلے، 19؍جولائی 1947ء کو آپ کی زندگی کا آفتاب غروب ہوگیا۔

خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں، کچھ دنوں قیام اور اپنی علمی و دینی اور روحانی تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد آخر میں اپنے وطن مالوف ’سملہ‘ میں مستقل قیام پذیر ہوئے، معاش کے لیے تھوڑی سی زمینداری اور کاشتکاری موجود تھی اس کی دیکھ بھال اپنے چھوٹے بھائی کے حوالہ کردی اور ذریعہ معاش سے بے فکر ہوکر، پوری زندگی توکل، فقر و درویشی کے ساتھ دین و ملت کی خدمت اور رشد و ہدایت کے لئے وقف کردی آپ کی بیعت اپنے جد امجد حضرت مولانا شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید فردوسی سملویؒ کے ہاتھ پر، حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمدیحیٰ منیریؒ کے سلسلہ فردوسیہ میں ہوئی۔ حضرت شہیدؒ وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے انگریزوں کے تسلط کے بعد، ہندوستان میں دین کے قیام و بقا کے لئے ’’بیعت طریقت‘‘ میں ’’بیعت جہاد‘‘ کو جاری فرمایا۔ حضرت مولانا شاد محمد قاسم عثمانی فردوسی نے اپنے جدامجد کے ہاتھوں پر، بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد بھی کیا۔ یہ بیعت جہاد اور پیر و مرشد حضرت شہیدؒ کا فیضان نظر ہی تھا، جس نے زندگی کے آخری لمحوں میں بھی آپ کے اندر، جوانوں کا سا جوش و ولولہ، دین کے قیام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے والہانہ عشق پیدا کردیا تھا، ایسی بے چین و سیماب وش طبیعت پائی تھی کہ ملک و ملت اور دین کا درد ان کا اپنا درد بن گیا تھا، پھر پوری زندگی دین و ملت کی خدمت اور رشد ہدایت میں گذار دی۔

آج کے دور میں تصوف و احسان اور سلوک و طریقت کا موضوع بڑا نازک اور نزاعی بن گیا ہے، اس کی نت نئی تعبیر ہیں، جو مختلف حضرات، مختلف الفاظ اور اپنے اپنے انداز نظر سے کرتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے تصوف و احسان کے وسیع مفہوم کو اختیار کیا آپ کے نزدیک اگر تصوف، کتاب و سنت اور شریعت کے حدود میں ہو تو لائقِ تحسین ہے۔ کتاب و سنت اور شریعت سے ہٹ کر اگر تصوف ہر کوئی چیز در آتی ہے تو قابل اصلاح ہے ورنہ کلیۃً لائق رد ہے۔ آپ کے نزدیک تصوف دراصل احسان کا نام ہے، جو شریعت کی کامل پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔ سلوک و تصوف کی حقیقت کو جاننے کے لیے آپ کے خطوط کا مجموعہ’ نقش دوام ‘کے باب اول ’تصوف و احسان‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ جن سے ہمیں فکر کی تابانی اور یقین کی گرمی دونوں ہی حاصل ہوتی ہے۔

جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کے اخلاق و اوصاف میں خلق محمدی کا عکس نظر آتا ہے، وہ سراپا اخلاص و عمل تھے۔ عشق رسول اور اتباع رسول ان کی سیرت و کردار کا نمایاں عنصر تھا۔ اپنی گفتگو، بات چیت اور رہن سہن میں ہمیشہ اسوۂ محمدی پیش نظر رکھتے۔ عادات و خصائل پسندو ناپسند سب میں اتباع سنت کو حرز جاں بنائے ہوئے تھے۔ آپ کا لباس اور انداز شرعی اور عالمانہ تھا، کھدر کا سفید اور لانبا کرتا، ٹخنوں سے اونچا پائجامہ، سفید تہ دار عمامہ اور سفید پٹکہ ہمیشہ استعمال فرماتے۔ حالت سفر میں چستی و آسانی کے لئے پٹکہ کو جو کاندھے پر رہا کرتا تھا کمر سے باندھ لیتے تھے۔ غالباً 46ء سے پہلے کا زمانہ تھا، کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش انتہائی عروج پر تھی، علماء اور اہل دین کی توہین اور استہزا عام تھا، گیا اسٹیشن پر ایک صاحب جو جدید تعلیم سے آراستہ، کوٹ، پینٹ اور ہیٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے، آپ کو دیکھ کر ٹہلتے ہوئے آپ کے قریب آئے اور تمسخرانہ انداز میں سنجیدہ بن کر پوچھا:
’’آپ کس صاحب کے خانساماں ہیں؟‘‘
آپ نے برجستہ جواب دیا: ’’محمد صاحب کے‘‘ (ﷺ)وہ حضرت شرمندہ ہوکر الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا، آنحضرت ؐ کی غلامی اور ان کے ’’خانساماں‘‘ ہونے کے احساس سے آپ کی آنکھیں روشن اور پیشانی تابناک ہوگئی۔
آپ عنفوان شباب ہی سے تہجد اور ذکر و اشغال کے پابند تھے، ساتھ ہی اپنے متوسلین اہل قرابت اور تعلق کو ہر خط میں نماز کی تاکید فرماتے، فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ آیت ربانی کی طرف متوجہ کرتے اور خود اس کے عملی نمونہ تھے، اپنے ایک عزیز کو ایک خط میں فرماتے ہیں:
’’آپ یقین کریں، حقیقی سعادت سے ہم ہرگز بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک ہم عبادت کو اپنا اوڑھنا، بچھونا نہ بنالیں، عبادت دلوں کی پونجی، متقیوں کا زیور، مردوں کا ہنر، ہمت والوں کا پیشہ اور حاصلِ عمر ہے۔‘‘
آپ کی شخصیت بڑی دل آویز، ہمہ گیر، جاذب نظر اور پرسوز و پرکشش تھی، وہ محبت، معرفت اور نگاہ کے حسین امتزاج تھے، اسی چیز نے ان کے اندر بڑی جامعیت پیدا کردی تھی، انفرادی تزکیہ و اصلاح، باطنی و روحانی ارتقا اور دینی انداز فکر کے ساتھ سیاسی و اجتماعی جدوجہد کے مختلف دھارے آپ کی زندگی میں آکر ملتے تھے اور ان سب کا سرچشمہ عشق نبوی تھا، ان کی زندگی اور فکر کی ساری روشنی و تابندگی ’’چراغِ مصطفوی‘‘ ہی سے فروزاں تھی، چنانچہ حبّ رسول اور اتباع سنت سے آپ کی پوری زندگی روشن و تابندہ تھی۔
آپ کی سیاسی و اجتماعی زندگی کا آغاز، جنگ آزادی کے مجاہد کی حیثیت سے 1912ء سے ہوا، تحریک ترک موالات کے دور میں انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر تحریک خلافت میں شریک ہوئے اور اس دورے کے اہل دین علماء اور سیاسی شخصیات سے آپ کا براہ راست رابطہ و تعلق تھا۔ الہلال کی صحافت کے ساتھ مولانا ا بوالکلام آزاد کی جماعت’ حزب اللہ‘، شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحبؒ کی خفیہ تحریک جہاد، مولانا عبید اللہ سندھی ؒ جیسی انقلابی شخصیت سے ذاتی مخلصانہ مراسم، مولانا سندھی کا ہندوستان سے فرار اور ریشمی خطوط والا واقعہ، ان سب سے آپ کا براہ راست ربط و تعلق تھا اور تمام تحریکوں میں آپ نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ بہار میں اقامت دین اور نظام شرعی کے قیام کی اہم تحریک امارت شرعیہ میںآپ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے شریک کار اور رفیق و غمگسار رہے۔ امارت شرعیہ کی تحریک کو صوبہ کی اہم زندہ اور فعال تحریک بنانے میں آپ کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ مولانا سجادؒ ، قاضی احمد حسینؒ اور شاہ محمد قاسمؒ امارت شرعیہ کے حقیقی عناصر ترکیبی تھے جن سے امارت شرعیہ بہار میں پروان چڑھی۔ آپ اپنے عنفوان شباب ہی سے عملاً اس وقت کے اکابر علماء اور سیاسی شخصیات کے ساتھ وابستہ رہے اور ان کے سیاسی کاموں میں عملاً شریک رہے لیکن جنگ آزادی کی تاریخ میں ان کا کہیں نام نظر نہیں آتا، وجہ ظاہر ہے، حضرت مخدوم الملک بہاریؒ کا فیضان ’’خاک شوگم نام شو‘‘ آپ اس کے حقیقی نمونہ تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد سے آپ کے کتنے قریبی تعلق تھے اور مولانا آزاد ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جس کا ذکر مولانا شاہ محمد عثمانی مدظلہ نے اپنی کتاب ’ٹوٹے ہوئے تارے‘ میں مولانا عبیداللہ سندھی کے حالات کے تذکرہ میں لکھا ہے:
’’ہمارے ایک عزیز (شاہ محمد قاسم عثمانی) نے جو ان دنوں مولانا کے معتمد لوگوں میں تھے مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو دہلی میں مولانا آزاد کا یہ پیغام پہنچایا تھا کہ ان کی گرفتاری کی تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ بھاگ جائیں۔ یہ بیان قریب قیاس اس لئے بھی ہے کہ مولانا سندھی دہلی سے بھاگ کر کچھ عرصہ سندھ کے دیہاتوں میں روپوش رہے اور بہر حال مولانا افغانستان پہنچ گئے اور مولانا محمود الحسن کے بتائے نقشہ پر کام کرتے رہے۔‘‘
اسی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمود الحسنؒ کا وہ خفیہ پیغام جو ’’ریشمی رومال‘‘ کے نام سے موسوم ہے اس کے پہنچانے میں بھی مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ براہ راست شریک تھے۔ اس لئے کہ آپ کے براہ راست تعلقات، مولانا ابوالکلام آزادؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ تینوں سے تھے۔ ان کی معیت میں آپ نے جنگ آزادی میں علمی حصہ لیا، تحریک خلافت میں شریک کار رہے۔ مسلمانوں کی دینی تشخص کے ساتھ کانگریس کی جنگ آزادی کی حمایت کی، جمعیۃ علمائے ہند سے عملی تعلق رہا اور امارت شرعیہ کے قیام سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اسی کے روح رواں اور ممد و معاون بنے رہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی اتنی گوناگوں، متنوع اور ہر دل عزیز تھی کہ اس مختصر مضمون میں آپ کی رنگارنگ شخصیت کے حقیقی خدوخال کو ابھارنا ممکن نہیں۔ آپ بیک وقت بوریہ نشین مرد درویش تھے اور مجاہد جلیل بھی، قائد بھی تھے اور وقت پڑنے پر والنٹیراور رضاکار بھی، غرض کہ ملک و ملت کے خادم اور مخدوم دونوں ہی تھے۔ آپ نے زیادہ عمر نہیں پائی اور تقریباً ۵۹ برس کی عمر میں اپنے وقت کے یہ گم نام مگر باکمال شیخ وقت، و درویش اور مجاہد جلیل ع نشان مرد مومن باتو گویم چوں مرگ آ ید تبسم برلب اوست کے مصداق لقویٰ کے مرض الموت میں مبتلا ہوئے، فالج کا اثر چہرہ اور حلق پرہوا، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور کوئی ٹھوس غذا فرو حلق نہیں ہوتی، علاج معالجہ جاری رہا ،تقریباً چھ مہینے بستر مرض پر رہے، ڈاکٹر حیرت زدہ تھے کہ چھ مہینے سے بغیر غذا کے ہیں،رقیق غذا بھی، چند قطرے مشکل سے فرو حلق ہوتی، آخر آپ زندہ کیسے ہیں؟ یہ صرف آپ کی روحانیت اور کرامت ہے۔ اس حالت میں بھی آخر وقت تک ذہن و دماغ پوری طرح کام کرتا رہا تھا۔ مسلسل لوگوں سے دین کی باتیں کرتے اور تلقین و ہدایت فرماتے رہتے۔ شدت تکلیف کے باوجود، چہرہ ہمیشہ پرسکون اور روشن رہا، اسی حال میں آخر وقت موعود آگیا اور آپ کی روح اپنے رب اعلیٰ سے جاملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخر، وقت کا یہ باکمال آفتاب رشد و ہدایت غروب ہوگیا، 29؍ شعبان العظم 1366ھ مطابق 19؍جولائی 1947ء اپنے آبائی گاؤں سملہ سے جانب مشرق خاندانی قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ اور رمضان المبارک کا چاند بعد تدفین مطلع غرب پر پیغام مغفرت دیتانظرآیا۔ خدا مغفرت کرے ع
وہ اپنی ذات سے اک انجمن تھے
اپنے وقت کے گمنام مگر با کمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل محبوب الا ولیاء حضرت شاہ محمد قاسم فردوسی ؒ کے وصال کے بعد خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ کی سجادگی جناب الحاج حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ کو عطا ہوئی،آپ کا انتقال پر ملال ماہ 22 ذیقعدہ1425ھ ؁ مطابق 4جنوری2005ء کو ہوا اور آپ اپنے خاندانی قبرستان سملہ میں مدفون ہوئے۔آپ کے وصال کے بعد سملہ میں حضرت شاہ احمد کبیر ابو الحسن شہید ؒ کے عرس مبارک کے مو قع پر 6 رجب المرجب1425ھ ؁ مطابق12اگست 2005بروز جمعہ بعد نماز مغرب علماء اور مشائخ کی موجودگی میں عزیزی مولانا شاہ ابودجانہ تسنیم عثمانی فردوسی سلمہ اللہ تعالیٰ کی دستار بندی ہوئی اور سجادگی عمل میں آئی۔اس طرح عزیز موصوف اپنے تمام خاندانی تبرکات کے محافظ اور اپنے بزرگوں کی روش اور نقش قدم پر رشد و ہدایت کے خلیفہ و مجاز ہیں۔
ہے خراب باد ہ ساقی کمالی کی دعا
حشر تک یا بوالحسن آباد میخانہ رہے

حضرت خو ا جہ اجمیری کاذوق سماع

محمد آیت اللہ قادری ،خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
سماع کی تعریف میں چشتی بزرگوں نے بہت کچھ لکھا ہے جس کے لئے بڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ یہاں میں سماع کے بارے میں چند باتیں اختصار سے عرض کرونگا۔
سماع کے لغوی معنی ذکر کے ہیں یعنی یاد کرنا ۔ تصوف میں بھی سماع کے یہی معنی ہیں ۔ چونکہ سماع کا مفہوم نفس میں موجود ہوتا ہے جس سے سامع پر حسب استطاعت ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
سماع کے کئی درجے مقرر کئے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ سامع کے خیالات و جذبات یکسو ہوکر خدا اور رسول کی طرف رجوع ہوجائیں اور روح میں پاکیزگی پیدا ہوجائے۔ دوسرا اور خاص درجۂ سماع یہ ہے کہ سننے والا ماسوا سے بے خبر ہوجائے اور معشوق حقیقی اللہ تبارک تعالیٰ کے عشق میں گم ہوجائے اور معرفت کے میدان میں پہنچ جائے اصلی سماع یہی ہے۔
یہ کہ سماع یا قوالی کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہٗ نے رکھی ہے درست نہیں ، لیکن یہ امر کہ خواجہ غریب نواز نے سماع اور قوالی کو دینی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ایک حیران کن حقیقت ہے بلکہ آپ کے اختیار کردہ ذوق سماع نے امت کو ایک طربناک مزاج عطا کردیا ہے۔ اس مزاج نے بلاد عرب کے علاوہ عجمی علاقوں میں اسلام کو جتنا فروغ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ خواجہ غریب نواز سے قبل کے دور میں ہم خلفائے بنوامیہ اور خلفائے بنی عباس کے عیش و نشاط کی محفلوں میں نغمہ سماع کا ایک ہنگامہ دیکھتے ہیں ۔ علماء نے کوئی قطعی فتویٰ اس باب میں عدم جواز کا نہیں دیا لیکن طریقت والوں نے اپنے اپنے حلقہ میں جب سماع کو رواج دیا تو بعض فقیہوں نے مزامیر کی بحث پر سماع کو ناجائز قرار دیا ۔ اس دور میں حضرت امام غزالی نے سماع اور نغمہ پر ایک مبسوط بحث فرمائی اور یہ ثابت کیا کہ خوش لحنی اور نغمہ کسی اعتبار سے بھی حرام نہیں ہوسکتا ہے۔ عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ انہوں نے حضور اکرم ا کے واقعہ دف سے بھی جواز کا استنباط فرمایا ہے۔ واقعہ مشہور ہے کہ مدینہ منورہ میں لڑکیوں نے نبی کریم ا کے ورود مسعود پر عشق رسولؐ کے عالم میں ’’طلع البدر علینا الخ‘‘ دف پر گایا تھا اور حضور ا نے سماعت فرمایا تھا ۔ امام غزالی کی بحث کے بعد علماء فقہ کے دو گروہ اس وقت ہوگئے تھے ، ایک طبقہ جائز قرار دیتا تھا اور دوسرا مکروہ لیکن یہ جتنی بحث بھی ہے وہ سماع اور نغمہ کے جواز اور عدم جواز پر ہے۔ یعنی جو طبقہ جائز سمجھ کر نغمہ و سماع سے لطف اندوز ہواکرتاتھا وہ طبقہ بھی کبھی یہ نہیں سوچ سکا کہ معاشرت عالم میں جو ایک ذوق نغمہ کارفرما ہے اس سے فائدہ اٹھاکر نغمہ پرستوں ہی کے ذریعہ منقلب الحال کیا جاسکتا ہے اور سرتاسر زندگی متغیر کی جاسکتی ہے۔
خواجہ غریب نواز نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ چھٹی صدی ہجری کی دنیا میں غیر اسلامی معاشرہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں کے باطل پرستوں کی پرستش کے طریقوں میں نغمہ و لحن اور موسیقی کو اس حدتک دخل نہ حاصل ہو کہ وہ اپنے نظریات تو بدل سکیں گے لیکن اپنا ذوق کماحقہ تبدیل کرلینا ان کے امکان سے باہر ہے تو آپ نے ’’آہن بہ آہن تواں نرم کرد‘‘ کے مصداق ذوق سماع کو اپناکر بجائے خود نغمہ و سماع کی تطہیر فرمادی ۔ چنانچہ جب آپ ہندوستان تشریف فرما ہوئے اور اس ملک کی برہمنی فضاؤں کو روح میں نغمہ و سخن کی آبپاشی پائی تو وقت کا مؤرخ بتاتا ہے کہ کس طرح شمار و تعداد سے باہر اہل ہندو قتیل نغمہ ہوکر چشتیوں کے دام تبلیغ کے اسیر ہوکر رہے ۔ کیا کہئے گا اس نغمہ کی سرمستیوں کو جو ہزارہا معبودان باطل کی پرستش سے چھڑا کر ایک الٰہ العالمین کے آگے سربسجود کردے۔
یاد آتاہے کہ جب کائنات ہست کے مبلغ اولین وآخرین نے اپنے ایک رفیق کو اشاعت دین کے لئے مامور فرماکر رخصت کیا تھا ۔ کئی صدیاں گزرجانے کے بعد اسی آستانہ رسالت اور بارگاہ نبوت سے ایک عظیم مرد خداداں و خدا بین کرۂ ارض کے سیاہ ترین خطہ ہند کی ہدایت کے لئے مامور و فائز المرام کرکے روانہ کیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی سرگوشی کے بطور اجتہاد کے منصب کی جانب اشارہ کرے تو جواب میں بجز اس کے کہ ذہن انسانی و جد و کیف کے عالم سے گزرجائے اور کیا ہوگا؟
مزید یہ کہ خواجگان چشت رحمہم اللہ کے اخبار و افکار میں متعلقین کے لئے سماع کے جوآداب ضروری ہیں ان کو برقرار رکھ کر قوالی سننا کچھ سہل کام نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخ چشت کی بارگاہ میں جو لوگ بہ نیت اعتراض اور بہ عزم شر پہنچا کرتے تھے رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا رنگ بدلتا چلا گیا اور ایک وقت ان پر ایسا بھی گزرا کہ سرتاسر انہیں اپنے آپ کو چشتی سانچہ میں ڈھال لینا پڑا ۔
ہندوستان میں ایسے بزرگ بھی ہوئے ہیں جو چشتی مسلک سے محض سماع کی بنیاد پر اختلاف رکھتے تھے لیکن آخر حال انہوں نے اپنا سر چشتی آستانوں پر خم کردیا اس نوع کے بزرگوں میں سیدنا ابوالعلا رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور ہیں اپنے خیالات پر نہ صرف یہ کہ پشیمان ہوئے بلکہ باطنی طور پر خواجہ غریب نواز نے انہیں خلافت سے بھی نواز ا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلہ کے ارادت مند محافل سماع میں غلو کے ساتھ رقص و وجد کرتے ہیں۔
جہاں تک خواجہ اجمیری کی مجالس سماع کا تعلق ہے ان کی حیثیت مختلف ہواکرتی ۔ تذکروں سے پتہ چلتا ہے کہ جب کبھی اپنے چند ارادت مندوں کے ساتھ ہوتے اور سماع کا آغاز ہوتا توخواجہ غریب نواز پر کئی شبانہ روز کیفیت طاری رہتی اور رفقاء کے لئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوتا کہ آپ کا عالم وجد مقدس روح کو جسم میں باقی رہنے دے گا کہ نہیں؟
حضرت قطب الاقطاب خواجہ بختیار کاکی نے جو کوائف آپ کے عالم وجد میں مشاہدہ کئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر نعمت و کیفیت کا ظرف و زمین سے کتنا گہرا تعلق ہے ۔ زمین جس درجہ کی ہوگی گلکاریاں بھی اسی درجہ کی ہوں گی ۔ ایک مشاہدہ جلوہ ہی کو لیجئے حضرت موسیٰ ں تجلی کے ایک گریزاں لمحات کو برداشت نہ کرسکے اورحضور اکرم ا بہ فضل و کمال عروج پاکر مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ قبول وحی و کلام خلوت کدہ تقریب میں اس طرح ہوتا ہے کہ آج تک دنیا اپنے فہم بے کمال کے ساتھ سرگرداں و حیران ہے اور کچھ بھی نہ سمجھ سکی غرض یہ کیفیاتی عالموں کا کوئی شمار اور حد تو ہے نہیں کہ احاطہ کیا جائے، البتہ نغمہ پر اس اعتبار سے بھی غور کرنا چاہئے کہ خود نغمہ کیا شئی ہے ، کم از کم یہ سمجھئے کہ نور اپنے مظاہر میں حسن صورت ہے کہ بصارت کو اس کے ادراک کا ذریعہ دیا گیا ۔ نور ہی اپنے مظاہر میں نغمہ ہے کہ جسے سماعت ادراک کرے۔ دونوں حاشیئے جو اطلاع بھی پہنچاتے ہیں روح اس سے حسب حیثیت متاثرہوتی ہے اور روح کی اثر پذیری کو پورے حواس پر محیط سمجھنا چاہئے۔
سماع کے باب میں عجیب معاملہ ہے جب تک یہ غلط ہاتھوں میں رہی نامسعود رہی جب اللہ والوں نے اپنایا تو مبارک مبارک ۔ بات یہ ہے کہ شئی جب اپنے اصل میں ہو یا ادراک کرلی جاسکے تو کوئی حجاب وارد نہیں کیا جاسکتا۔ خواجہ غریب نواز نے نغمہ کو تمام اعتبارات کے حجاب سے معرا محسوس کیا اور شدت احساس نے مادۂ جسمیت کو بارہا متزلزل کرکے رکھ دیا ۔ دوسری جانب دیکھا جاسکتا ہے کہ نغمہ اپنے فنی ضوابط سے بعض طبائع پر کس طرح اشتعال نامبارک کا باعث بنتا ہے گویا بقول حضرت امام غزالی یہ سمجھنا چاہئے کہ سماع جس شخص میں جو کچھ موجود ہے اسی کو ظاہر کردینے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
چشتی بزرگوں کے ہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حالت سماع میں صاحبان وجد واصل بحق ہوگئے ہیں اور موجودہ عہد میں بھی اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ اب یہ کہنا کہ کیفیت سماع انقطاع روح کا باعث کیونکر ہوسکتی ہے تو یہ عرض کیا جائے گا کہ نہ جانے کتنی کیفیاتی حقیقتیں ہیں کہ جن کے اظہار پر گمان وبیان کو قدرت نہیں ہے ۔ وقوعہ دراصل حیران کن کم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی صاحب اثر اپنے باطن کے احوال کا پرتو بزم پر ڈال سکے ۔ یہ فیض نظر ہے خواجہ غریب نواز کا کہ آج بھی ایسے بزرگ موجود ہیں جنہوں نے محض ارباب ظاہر کو مجلس سماع میں پایا تو اپنی نگاہ کی جلوہ طرازیوں سے یکسر صورت بزم منقلب کرکے رکھ دی ۔ جمال دوست کی محویت جن صاحبان کمال کو نغمہ کی نرم و نازک شمشیر سے شہید کردے ان کے قلوب کا گداز اور ان کے دلوں کی رقت کے باب میں کون اپنی زبان کھول سکے گا۔
حضرت قطب الاقطاب بختیار کاکی نے خواجہ غریب نواز سے اگر ذوق سماع کا اکتساب کیا تو یہ کہتے ہوئے واصل الی اللہ ہوگئے کہ :
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
فریادرس فریادرس
محمد آیت اللہ قادری
اے خواجۂ جود و سخا فریادرس فریادرس
اے شمعِ بزمِ اولیاء فریادرس فریادرس
اے نورِ عینِ مصطفا فریادرس فریادرس
وے مظہرِ شیرِ خدا فریادرس فریادرس
نالم برائے مرتضیٰ فریادرس فریادرس
وز پے شہیدِ کربلا فریادرس فریادرس
آید نسیمِ روضۂ یثرب بہ صحن روضہ ات
اے آفتابِ اصفیاء فریادرس فریادرس
حور و ملک بر آستاں جن و بشر بر درگہت
محبوبِ محبوبِ خدا فریادرس فریادرس
ایں غنچۂ مقصودِ من را کن شگفتہ از کرم
بہرِ نظامِ اولیاء فریادرس فریادرس
امید می دارم ز فیضانِ تو اے ہندالولی
فرمانروائے چشتیا فریادرس فریادرس
آیتؔ بگردِ روضۂ اجمیر دیوانہ شدہ
دارد ز تو یک التجا فریادرس فریادرس

حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ

حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک
 شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ

حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری ؒ کی ولادت با سعادت شعبان کے آخری جمعہ ۶۶۱ھ میں اپنے آبائی مکان میں بمقام منیر شریف ہوئی۔سال پیدائش ان دو الفاظ ’’شرف آگیں‘‘ سے نکلتا ہے۔اسم شریف شرف الدین احمد رکھا گیا۔سید المتکلمین، برہان العاشقین، سلطان المحققین،شیخ الاسلام، مخدوم جہاں سے ملقب ہوئے۔ مخدوم الملک خطاب تھا اور اس سے مشہور ہیں۔
حضرت مخدوم الملک ؒ کے خاندان کے بانی حضرت محمد تاج فقیہؒ بیت المقدس سے منیر تشریف لائے،منیر کو فتح فرمایا اور اپنی اولاد کو ترویج اسلام کے لیے منیر میں قیام کا حکم دیا اور خود بیت المقدس واپس تشریف لے گئے۔ حضرت مخدوم جہاں ؒ آپ کی چوتھی پشت میں ہیں۔ حضرت شیخ ابو توامہ ؒ جب دہلی سے سنار گاؤں جا رہے تھے تو آپ نے منیر میں حضرت مخدوم الملک کے والد حضرت شیخ یحیٰ منیری ؒ کے پاس قیام کیا۔حضرت مخدوم الملک ؒ بھی آپ کی خدمت میں رہے اورتبحرعلمی سے بہت متاثر ہوئے ۔ جب حضرت شیخ شرف الدین ابوتوامہؒ سنار گاؤں جانے لگے توحضرت مخدوم الملکؒ نے اپنے والد حضرت شیخ یحیٰ منیری ؒ سے سنار گاؤں جاکر تعلیم حاصل کرنے کی اجا زت لی ۔ والد ماجد نے آپ کے شوق علم کو مد نظر رکھتے ہوئے بخو شی اجازت دے دی اور آپ حضرت شیخ ابو توامہ ؒ کے ساتھ سنار گاؤں تشریف لے گئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا یہ عالم تھا کہ گھر سے اگر کوئی خط جاتا تو آپ اس کو اس ڈر سے نہ پڑھتے کہ پتہ نہیں اس میں کیا لکھا ہو جس سے دماغ متفکر اور پریشان ہواور اشتغال علمی میں بے توجہی اور انتشار پیدا ہو جائے۔ مناقب الا صفیاء میں حضرت مخدوم شاہ شعیب ؒ لکھتے ہیں کہ جب مولانا نے آپ کے شوق کا یہ حال دیکھا تو آپ کا کھانا بھی الگ کردیا کہ طلبہ کے ساتھ دستر خوان پر حاضر ہونے میں تضیع اوقات کاخیال تھاوہ بھی ساقط ہو جائے۔ حضرت مخدوم الملک ؒ نے ایک طویل عرصہ تک حضرت شیخ شرف الدین ابوتوامہؒ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کیااور آپ سے تفسیر، فقہ، حدیث، اصول، کلام ، منطق، فلسفہ، ریاضیات و دیگر علوم کی تعلیم حاصل کی۔زمانۂ طالب علمی ہی میں حضرت شیخ شرف الدین ابو توامہؒ نے اپنی صاحبزادی سے حضرت مخدوم الملک ؒ کی شادی کردی جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد بھی عنایت فرمائی۔فراغت علم کے بعد جب آپ نے خطوط کو کھولا تو پہلے ہی خط سے والدکے انتقال کی خبر معلوم ہوئی۔والد ماجد کے انتقال کی خبر سے ماں کی محبت دل میں موجزن ہوئی اور آپ اپنے فرزند شاہ ذکی الدینؒ کے ہمراہ منیر تشریف لے آئے،اپنی ماں کے سایۂ شفقت میں کچھ ہی دن رہے کہ محبت الٰہی نے جوش مارا اور آپ نے حضرت شاہ ذکی الدین ؒ کو اپنی والدہ کے حوالے کرتے ہوئے عرض کیا کہ اب میری جگہ ذکی الدین کو سمجھئے اور مجھے اب اللہ کی یاد میں آزاد فرمائیے۔والدہ ماجدہ نے بخوشی اجازت دے دی اور آپ تلاش پیر کے لئے دہلی تشریف لے گئے دہلی پہنچ کر حضرت مخدوم الملکؒ وہاں کے مشائخین سے ملے اور ان کی وعظ و تدریس کی مجلسوں میں شرکت کی لیکن آپ متاثر نہ ہوئے۔پھر آپ نے حضرت محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاءؒ سے جو کہ اس وقت قطب دہلی تھے ملاقات کی۔حضرت مخدوم الملکؒ سے حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے سید ضمیر الدین عظیم آبادی’’سیرت الشرف‘‘ میں لکھتے ہیں
’’مشاہیر دہلی سے ملنے کے بعدمخدوم حضرت نظام الدین اولیا کے یہاں جو اس وقت قطب دہلی تھے حصول بیعت کی نیت سے حاضر ہوئے اس وقت شیخ کی مجلس میں کچھ مذاکرۂ علمی تھا،مخدوم بھی اس میں شریک ہوئے اور تقریر پسندیدہ کی۔شیخ نے آپ کا اعزاز و اکرام کیا مگریہ کہکر’سمر نیست کہ نصیب دام ما نیست‘بیعت نہیں لی اور ایک بیڑہ پان کا دے کر رخصت کیا۔‘‘
حضرت مخدوم الملک دل برداشتہ پانی پت تشریف لے گئے اور حضرت مخدوم شرف الدین قلندر پانی پتی ؒ سے ملے مگر یہ فرما کر کہ شیخ ہیں مگر اپنے حال میں مست وہاں سے بغیر بیعت ہوئے واپس ہو گئے۔آپ کے بڑے بھائی حضرت شیخ کمال الدین جو آپ کے ہمراہ تھے دہلی میں حضرت پیر نجیب الدین فردوسی ؒ کے یہاں حاضری کا مشورہ دیا،حضرت مخدوم الملک پہلے تو تیار نہ ہوئے لیکن بہت اصرار پرحضرت پیر نجیب الدین فردوسی ؒ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کو تیار ہوئے۔ حضرت مخدوم الملک ؒ کا حضرت پیر نجیب الدین فردوسی ؒ کے یہاں حاضری کے وقت کا یہ عالم تھا کہ دہشت سے پسینے سے تر بتر تھے۔ سلام کے بعد آپ نے بیعت کی درخواست کی شیخ نے قبول کیا اور بیعت کے بعد اندر تشریف لے گئے اور اجازت نامہ و خرقہ وغیرہ لاکر دیا۔حضرت مخدوم الملک ؒ نے عرض کیا ابھی تو میں نے کچھ خدمت بھی نہیں کی اور اس راہ کے اسرار و رموز سے واقف بھی نہیں ہوا۔ حضرت پیر نجیب الدین ؒ نے فرمایا کہ یہ اجازت نامہ بارہ سال قبل حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کے حکم سے تمہارے لیے لکھ کر رکھا ہے،روح نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم براہ راست تمہاری مربی ہوگی۔
بیعت کے بعد شیخ کے حسب الحکم وطن کی طرف سفر کیا راستے میں شیخ کے وصال کی خبر ملی لیکن حسب وصیت گھر کی طرف سفر جاری رکھا۔ دل محبت الٰہی سے سرشار اور محبت پیر میں مست و مخمور تھا کہ بہیا کے جنگل میں مور کی کوک سنائی دی اور آپ نے ضبط کی تاب نہ لاتے ہوئے نعرۂ حق بلند کیا اور جنگل کی راہ لی،ساتھ میں جو لوگ تھے حیران و پریشان دیکھتے رہ گئے۔ بھائی نے تلاش کیالیکن کچھ پتہ نہ لگابا لآخر تبرکات شیخ لے جا کر ماں کی خدمت میں امانتاً پیش کردیا۔
حضرت مخدوم الملک ؒ بارہ برس تک بہیا کے جنگل میں رہے،بارہ برس بعد آپ راجگیر کے جنگل میں دیکھے گئے،پھر بہت دن بعد آپ کو ایک شخص نے اس عالم میں دیکھا کہ آپ ایک درخت کی ٹہنی پکڑے آسمان کی طرف محو حیرت تک رہے ہیں اور چیو نٹیاں منہ سے آجا رہی ہیں اور آپ کو اس کی مطلق خبر نہیں۔ بالآخر لوگوں کو حضرت مخدوم الملک ؒ کی موجودگی کا علم ہوا اور لوگ جنگلوں میں جاکر آپ سے ملاقات کرنے اور آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے لگے۔راجگیر میں پہاڑی کے دامن میں حضرت مخدوم الملک ؒ کا حجرہ ہے اور اس حجرہ کے قریب ہی ایک جھر نا ہے جو مخدوم کنڈ کے نام سے مشہور ہے اور مرجع خلائق ہے۔ حضرت مخدوم الملک ؒ نے جب لوگوں میں طلب صادق دیکھا تو ہر جمعہ کو لوگوں کے اصرار پربہار شریف تشریف لانے لگے اور لوگ آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے لگے۔
سلطان محمد شاہ تغلق کو دہلی میں جب آپ کے بہار میں تشریف فرما ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے آپ کے لئے خانقاہ تعمیر کرانے کا حکم دیاجاء نماز اور کچھ جاگیریں آپ کو تحفتاً بھجوائیں جو آپ نے بڑے پس و پیش کے بعد قبول کر لیں،خانقاہ تعمیر ہوئی اور آپ اس میں مستقل سکونت پذیر ہوئے،آپ کے بہارشریف میں مستقل قیام کے بعد آپ کی والدہ اور آپ کے صاحبزادے بھی آپ ہی کے زیر سایہ آگئے اور مریدین و متوسلین کا مجمع رہنے لگا۔
۵ شوال ۷۸۲ھ دن گزار کے شب میں نماز عشاء کے وقت حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری ؒ وصال ہوا۔نماز جنازہ حضرت اشرف جہانگیر صمدانی ؒ نے پڑھائی جو کہ حضرت مخدوم الملک ؒ سے بیعت کی نیت سے حاضر ہوئے تھے لیکن حضرت مخدوم الملک ؒ کا انتقال ہو چکا تھا۔سال وصال ان دو الفاظ ’’پر شرف ‘‘ سے نکلتا ہے۔

جمعہ، 31 جنوری، 2014

شجرہ سلسلہ عالیہ فردوسیہ

سلسلہ عالیہ فردوسیہ برہانیہ
بروح پاک حضرت سیدنا و نبینا و مولانا احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وسلم
بروح پاک حضرت سیدنا علی کرم الله وجہ
بروح پاک حضرت  سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ
بروح پاک حضرت سیدنا امام محمد باقر رضی الله عنہ
بروح پاک حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی الله عنہ
بروح حضرت سیدنا موسی کاظم رضی الله عنہ
بروح پاک حضرت سیدنا امام موسی علی رضا رضی الله عنہ
بروح پاک حضرت سیدنا خواجہ معروف کرخی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ سری سقطی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ جنید بغدادی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ ممشاد علو دینوری رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ محمد اسود رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ محمد بن عبداللہ عمویہ رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ وجیه الدین ابو حفص کبیر رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ ضیاء الدین ابو نجیب سہر وردی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ نجم الدین کبریٰ رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ سیف الدین با خرزی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ بدر الدین سمر قندی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ رکن الدین فردوسی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت خواجہ نجیب الدین فردوسی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مخدوم شاہ شرف الدین احمدیحیٰ منیری رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مولانا مظفر بلخی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مخدوم نوشہ توحید رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مخدوم حسن بن مخدوم حسین نوشہ توحید رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مخدوم شاہ شعیب رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مخدوم اسحاق رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مخدوم شاہ برہان الدین عرف خوند میاں دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ منصور دانش مند دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ معروف دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ غلام محی الدین اولیاء دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ غلام شرف الدین دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ غلام علی دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ غلام ولی دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مولانا شاہ کمال علی دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مولانا شاہ غلام امام فردوسی سملوی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ محمد علی سملوی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت الحاج شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید سملوی رحمة الله علیہ
خانقاہ برہانیہ کمالیہ، حضرت دیورہ
بروح پاک حضرت شاہ فدا حسین دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ محمد ابراہیم فردوسی دیوروی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت مولانا شاہ منصور  احمد فردوسی دیوروی رحمة الله علیہ
خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ،سملہ پاک
بروح پاک حضرت شاہ مجیب الحق کمالی فردوسی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت شاہ غلام شرف الدین فردوسی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت الحاج محبوب الاولیا شاہ محمد قاسم فردوسی رحمة الله علیہ
بروح پاک حضرت الحاج شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی رحمة الله علیہ

کیا وقت تھا کیا لوگ تھے

کیا وقت تھا کیا لوگ تھے۔1
سملہ کی کہانی میری زبانی

ابن طاہر

سملہ،چہار جانب چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے گھری ،کچے پکّے مکانات پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی دور سے ہی لوگوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ریلوے لائن سے ۸ کلو میٹر دور جنوب اور شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ سے ۱۵ کلو میٹر دور بسی اس بستی تک پہنچنا آج بھی اتنا آسان نہیں ۔یہاں زمانہ قدیم سے ایک عثمانی خانوادہ آباد ہے۔یہ اہل دل کی بستی ہے۔بستی کے آغاز میں ہی ایک مسجد ہے جہاں سے پانچوں وقت اللہ کی وحدانیت کی صدا بلند ہوتی ہے۔اس سے ملحق مدرسہ اور خانقاہ ہے جس کی فضائیں قران مجید کی تلاوت سے گونجتی رہتی ہیں۔خانقاہ میں عمارت کے نام پر ایک چھوٹا سا حجرہ ہے جس کی دیوار کبھی مٹی کی تھی اور چھپر کھپڑہ پوش تھی۔برسات کے دنوں میں اس میں پانی کا ٹپکنا عام تھا۔اندر ستلی سے بنا ایک چھوٹا سا کھٹولہ جس میں پیر سیدھا کرنے کی بھی گنجائش نہیں تھی ایک جانب رکھا تھا۔حجرے کی زمین سجدوں سے منور تھی۔اندر داخل ہونے پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی اور ہی دنیا میں قدم رکھ دیا ہو۔سکون و طمانیت کے ساتھ دل پر ایک عجیب سی ہیبت طاری ہوتی اور وہ بے ساختہ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کو بے قرار نظر آتا۔زبان پر بے ساختہ درود جاری ہوجاتا اور ایسا لگتا یہ جگہ صرف اپنے رب کی بندگی اور اس کے محبوب ﷺپر صلوٰاۃ و سلام کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔اس حجرے کے مکینوں نے نہ جانے کتنی راتیں اپنے رب کی باگاہ میں گریہ و زاری میں گزاری تھیں۔ان کی شب بیداری اور ان کی آہ سحر گاہی سے اس حجرے کا ذرہ ذرہ منور معلوم ہوتا۔

قطب العصر حضرت شاہ محمد علی فردوسی کا یہ حجرہ ان کے بعد کے بزرگوں کے لئے بھی اپنے رب کی بارگاہ میں حضوری کی جائے خاص بنا رہا۔حضرت شاہ ابو الحسن شہید ؒ کو تو یہ مقام اتنا ہی پسند تھا کہ آپ نے اس حجرے کے صحن میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔صحن میں مسجد کی منڈیر کے گر جانے سے آپ نے یہیں پر جام شہادت نوش فرمایا۔اس وقت اس مقام پر ٹائلس کی مدد سے جائے نماز بنا دی گئی ہے جہاں طالبان حق دوگانہ نماز ادا کرکے اپنے لیے توشۂ آخرت بٹورتے ہیں۔مٹی کے اس قدیم حجرے کی جگے اب نیا پختہ حجرہ تعمیر کر دیا گیا ہے۔ساتھ ہی مسجد سے ملحق خانقاہ کا نیا سماع خانہ بھی تعمیر ہوچکا ہے۔مسجد،حجرہ اور سماع حانہ ،ایک ایسا مثلث بن چکا ہے جہاں آج بھی تشنگان محبت کو ایمان و یقین کی پختگی ملتی ہے اور بزرگوں کا فیض اسی طرح جاری و ساری ہے۔

کبھی جب یہاں مٹی کا حجرہ ہوا کرتا تھارجب المرجب کے سالانہ عرس کے موقع پرحجرے کے سامنے سماع خانے کے لئے لوہے کے رڈ نصب کیے جاتے تھے جن کی مدد سے شامیانہ لگایا جاتا تھا۔عرس کے زمانے میں سملہ بستی کی رونق ہی عجیب ہوتی ۔رجب کا چاند نظر آتے ہی خانقاہ میں مریدین و متوسلین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔پیر تو پیر مرید  بھی ایسے کے آج کے زمانے کے جبہ و دستار سے لیس مزاروں کے کاسہ بردار ان کے سامنے پانی بھریں۔مریدین میں آپس میں ایسی محبت و الفت کے ایک دوسرے کے لئے جان دینے کو تیار۔پیر پر تو ہر وقت جاں نثار کرنے کے لئے بے قرار۔چہرے ایمان و یقین کی ایسی دولت سے سرشار کے اچھے اچھے اس پر رشک کریں۔نہ جبہ نہ دستار لیکن چہرے پر نور کی ایسی بہارکہ پیر بھی اپنے مریدوں کو دیکھ کر فرط مسرت سے سر شار۔غرض یکم رجب سے ۵رجب تک اہل دل کے آنے کا سلسلہ جاری رہتا اور روز بروز آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا مسجد اور حجرے کا صحن قران اور درود و سلام کی آوازوں سے گونجتا رہتا۔ہر جانب نور کی برسات ہوتی نظر آتی۔مسجد سے ملحق پچھم جانب صاحب سجادہ حضرت والد ماجد حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ کا ذاتی مکان آنے والوں کا سب سے پہلے استقبال کرتا۔کھپرے کی چھپر والے اس مکان کے اوسارے میں صاحب سجادہ اپنی چارپائی پر بیٹھے اپنے مریدوں کا استقبال کرتے۔ہر آنے والا مرید اس بے قراری سے آکر ملتا جیسے پیاسے کو سمندر مل گیا ہویا چھوٹی چھوٹی ندیاں اس سمندر میں ضم ہو جانے کو بے قرار ہوں ۔

(جاری)

حمد

حمد باری تعالیٰ

 تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ
(زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ ، سملہ ، ضلع اورنگ آباد)

لطف سے تیرے بہار بے خزاں یہ کائنات
عرش سے تا فرش ہے تابندہ رخشندہ حیات

بحر و بر ارض و سما،  شمس و قمر ماہ  و  نجوم
دوڑتا پھرتا ہے ہرسو بے خطر رخش حیات

حمد

ہر ایک صنعت میں ہے نمایاں کمال تیرا جمال تیرا
ہے ذرے ذرے کے دل میں پنہاں کمال تیرا جمال تیرا

کہیں ہے خوابیدہ تیری الفت کہیں ہے شوریدہ سر طبیعت
کہیں ہے پنہاں کہیں ہے عریاں کمال تیرا جمال تیرا

ہے تیری تخلیق کا خلاصہ بہ شکل نور رسول خاتم
اسی سے روشن ہے بزم امکاں کمال تیرا جمال تیرا

ہر ایک آنکھوں میں نور تیراہر ایک جاں میں سرور تیرا
ہر ایک دل میں ہے شمع سوزاں کمال تیرا جمال تیرا

ہے نکہت گل میں تو رمیدہ ہے شاخ گل میں بھی تو چمیدہ
شعاع خورشید میں فروزاں کمال تیرا جمال تیرا

جمال مہتاب بزم انجم ہو فرش خاکی کہ در مکنوں
زمیں سے تا بہ فلک ہے رقصاں کمال تیرا جمال تیرا

یہی دعا ہے ہماری مولا کہ شمع الفت رسول عربی
ہو قلب طاہر میں بھی فروزاں کمال تیرا جمال تیرا