بیادگار تاج العرفان حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ و حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ؞؞؞؞؞؞خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کی مطبوعات کے آن لائن ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ آئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞

ہفتہ، 28 مارچ، 2015

کیا وقت تھا کیا لوگ تھے۔۲

کیا وقت تھا کیا لوگ تھے۔2
سملہ کی کہانی میری زبانی
ابن طاہر

عرس کی آمد کا سملہ اور اطراف کے بستی والوں کو شدت سے انتظار رہتا۔ جمادی الثانی کا چاند ہی ان کے لئے رجب کی خوشیوں کا پیغام لے کر آجاتا۔ وہ شدت کے ساتھ اس دن کے انتظار میں لگ جاتے کہ کب انہیں اپنے پیر صاحب سجادہ حضرت حکیم شاہ محمد طااہر عثمانی فردوسی ؒ کے سملہ آنے کا مژدہ ملے جن کا مستقل قیام کول فیلڈ کے شہر جھریا میں  تھا جہاں وہ کسب معاش کے لئے طبابت کا پیشہ کرتے تھے اور ایک حاذق طبیب تھے۔ایک طرف رشد و ہدایت کی ذمہ داری تھی  تو دوسری جانب  رزق حلال کی تلاش۔ آپ نے ہمیشہ اپنے گھریلو اخراجات اور نظام خانقاہی کی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا۔ جو کچھ بھی نذر و فتوحات اللہ کے فضل و کرم سے آتیں وہ خانقاہ کے اخراجات میں صرف ہوتیں اور اپنے ذاتی اخراجات کے لئے اپنی محنت اور اللہ کے فضل وکرم پر بھروسہ ہوتا۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے احساس خودداری کو ٹھیس نہ لگنے دی۔ یہی سبب تھا کہ اگر کسی مرید کا نذرانہ قبول کرلیتے تو وہ اس کو اپنے لئے باعث سعادت خیال کرتا اور ایک اشارے پر خانقاہ اور اپنے پیر کے لئے دل و جان نثار کرنے  کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا۔ اللہ کا فضل ہے یہی خوداری اور صبر و استغنا ان کی اولاد کے بھی حصہ میں آیا اور سب نے اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر محنت و مشقت اور ملازمت کو اپنا شعار بنایا۔خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت  حکیم شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی مدظلہ اس منصب جلالت پر فائز ہونےکے ساتھ ساتھ جمشید پور کے ٹاٹا ہائی اسکول  میں ملازمت کرتے ہیں اور اپنی دونوں ہی ذمہ داریوں کو بخیر و خوبی سر انجام دیتے ہیں۔  بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ ان باتوں کے بیان کا مقصد محض  اتنا تھاکہ وہ لوگ جو خانقاہوں اور پیری مریدی کو ہیچ اور ایک پیشے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کی نظروں سے پردہ اٹھ سکے۔

بہر حال میں عشق سےمنور ان دلوں کی داستان بیان کررہا تھا جو اپنے پیر کی محبت میں ہمہ وقت سرشار رہتے اور انتظار میں رہتے کہ کب  منادی ہو کہ ان کے پیر  رفیع گنج  تشریف لارہے ہیں۔ رفیع گنج سملہ سے ۸ کیلو میٹر کی دوری پر  نزدیک ترین اسٹیشن ۔ہے جو ہوڑہ نئی دہلی مین ریلوے لائن پر گیا جنکشن کے بعد واقع ہے۔اب یہاں کئی ٹرینیں رکنے  لگی  ہیں مگر اس زمانے میں صرف پسنجراورایک دوایکسپریس ٹرینیں رکتی تھیں۔جس ٹرین سے آنا ہوتا اس کی آمد سے قبل اسٹیشن مریدوں سےبھرجاتا۔اسٹیشن ماسٹر ویٹنگ روم جو علاقے کے امرا کے لئے مخصوص تھا اس کی صفائی ستھرائی میں لگ جاتا ۔اسے بھی اس بات کا احساس ہوتا کہ آنے والی ٹرین سے جو شخص آنے والا ہے یقینآ اس کی شخصیت غیر معمولی ہے۔منظر نامہ بدل چکا تھا گیا کے جس اسٹیشن پر آپ کے والد  حضرت شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کو ان کے عمامہ کی وجہ سے ایک نوجوان نے نیچی نظر سے دیکھاتھا اس کے بعد  کی  نسل ان کے بیٹے کے لئے نظریں بچھائے کھڑی تھی۔آپ کےوالد ماجد نے محبت،شرافت، رواداری، حسن سلوک کا جو بیج ۔بویا تھا آپ کی آبیاری سے اس کی فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ سروں پر ٹوپی اور کرتا لنگی و پاجامےمیں ملبوس مریدین ٹرین کے رکتے ہی بوگی کے سامنے یکجا ہو جاتے اور سامان اٹھانے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہم بھائیوں کی حالت یہ ہوتی کہ کوئی کسی کی گود میں ہوتا تو کسی کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں۔ ایسا لگتا جیسے کوئی دولت غیر مترقبہ ہاتھ آگئی ہو اور ہر کوئی اسے لوٹ لینا چاہتا ہو۔ محبت و عقیدت کا وہ منظر اب آنکھوں سے معدو م ہے یہیں آکر اب بے ساختہ منھ سے نکل جاتا ہے کہ ''آہ کیا وقت تھا اور کیا لوگ تھے۔ان کے دل کیسی محبت سے سرشار تھے۔ سادہ زندگی گزارنے والے صبروقناعت کے یہ پیکر جمیل ،یہ محنت کش اور حلال رزق کے متوالے یہ لوگ اپنی کم مائیگی میں بھی کتنا خوش اور کتنے فراخ دل تھے ۔ اور پھر خیال آتا ہے کہ کیسی ہوں گی وہ شخصیات جنہوں نے ان بنجر دلوں کی آبیاری کی  ایسی آبیاری کے ان کے دل سونا اگلنے لگے۔ یہی وہ دل تھے جو ایک دوسروں کو دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ دین ان کے گھروں سے دور تھا۔جہالت ان کے یہاں عام تھی لیکن مسلسل جہد پیہم سے ان بزرگوں نے ان دلوں کو محبت الٰھی سے   سرشار اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے سر بسجود ہونے کی خوشیوں سے ہمکنار کرایا۔ طاعت و بندگی ان کے رگ و پے میں سما گئی۔ دنیا والے ان سادہ لوحوں کو ان پڑھ اور گنوار سمجھتے رہے لیکن ان کے دل عشق رسول اور محبت الٰہی میں ایسے روشن تھے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ''یک در گیر و محکم گیر "" کے مقولے کو انہوں نے اس شدت سے پکڑا تھا کے آج تک کوئی اس کو ہلا نہ پایا۔وہاں لمبی لمبی تقریریں اور اجتماعات نہیں تھے۔وہاں اعمال تھے وہاں عملی زندگی تھی۔وہاں اسوۂ حسنہ تھاسادگی تھی  خدمت تھی اور اخلاص تھا۔ الحمد اللہ خانقاہ میں وہی سادگی،خدمت اور اخلاص کا جذبہ آج بھی باقی ہےاور بزرگوں کا فیض  جاری و ساری ہے۔

(جاری)