بیادگار تاج العرفان حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ و حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ؞؞؞؞؞؞خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کی مطبوعات کے آن لائن ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ آئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞

ہفتہ، 1 فروری، 2014

حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ

حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک
 شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ

حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری ؒ کی ولادت با سعادت شعبان کے آخری جمعہ ۶۶۱ھ میں اپنے آبائی مکان میں بمقام منیر شریف ہوئی۔سال پیدائش ان دو الفاظ ’’شرف آگیں‘‘ سے نکلتا ہے۔اسم شریف شرف الدین احمد رکھا گیا۔سید المتکلمین، برہان العاشقین، سلطان المحققین،شیخ الاسلام، مخدوم جہاں سے ملقب ہوئے۔ مخدوم الملک خطاب تھا اور اس سے مشہور ہیں۔
حضرت مخدوم الملک ؒ کے خاندان کے بانی حضرت محمد تاج فقیہؒ بیت المقدس سے منیر تشریف لائے،منیر کو فتح فرمایا اور اپنی اولاد کو ترویج اسلام کے لیے منیر میں قیام کا حکم دیا اور خود بیت المقدس واپس تشریف لے گئے۔ حضرت مخدوم جہاں ؒ آپ کی چوتھی پشت میں ہیں۔ حضرت شیخ ابو توامہ ؒ جب دہلی سے سنار گاؤں جا رہے تھے تو آپ نے منیر میں حضرت مخدوم الملک کے والد حضرت شیخ یحیٰ منیری ؒ کے پاس قیام کیا۔حضرت مخدوم الملک ؒ بھی آپ کی خدمت میں رہے اورتبحرعلمی سے بہت متاثر ہوئے ۔ جب حضرت شیخ شرف الدین ابوتوامہؒ سنار گاؤں جانے لگے توحضرت مخدوم الملکؒ نے اپنے والد حضرت شیخ یحیٰ منیری ؒ سے سنار گاؤں جاکر تعلیم حاصل کرنے کی اجا زت لی ۔ والد ماجد نے آپ کے شوق علم کو مد نظر رکھتے ہوئے بخو شی اجازت دے دی اور آپ حضرت شیخ ابو توامہ ؒ کے ساتھ سنار گاؤں تشریف لے گئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا یہ عالم تھا کہ گھر سے اگر کوئی خط جاتا تو آپ اس کو اس ڈر سے نہ پڑھتے کہ پتہ نہیں اس میں کیا لکھا ہو جس سے دماغ متفکر اور پریشان ہواور اشتغال علمی میں بے توجہی اور انتشار پیدا ہو جائے۔ مناقب الا صفیاء میں حضرت مخدوم شاہ شعیب ؒ لکھتے ہیں کہ جب مولانا نے آپ کے شوق کا یہ حال دیکھا تو آپ کا کھانا بھی الگ کردیا کہ طلبہ کے ساتھ دستر خوان پر حاضر ہونے میں تضیع اوقات کاخیال تھاوہ بھی ساقط ہو جائے۔ حضرت مخدوم الملک ؒ نے ایک طویل عرصہ تک حضرت شیخ شرف الدین ابوتوامہؒ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کیااور آپ سے تفسیر، فقہ، حدیث، اصول، کلام ، منطق، فلسفہ، ریاضیات و دیگر علوم کی تعلیم حاصل کی۔زمانۂ طالب علمی ہی میں حضرت شیخ شرف الدین ابو توامہؒ نے اپنی صاحبزادی سے حضرت مخدوم الملک ؒ کی شادی کردی جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد بھی عنایت فرمائی۔فراغت علم کے بعد جب آپ نے خطوط کو کھولا تو پہلے ہی خط سے والدکے انتقال کی خبر معلوم ہوئی۔والد ماجد کے انتقال کی خبر سے ماں کی محبت دل میں موجزن ہوئی اور آپ اپنے فرزند شاہ ذکی الدینؒ کے ہمراہ منیر تشریف لے آئے،اپنی ماں کے سایۂ شفقت میں کچھ ہی دن رہے کہ محبت الٰہی نے جوش مارا اور آپ نے حضرت شاہ ذکی الدین ؒ کو اپنی والدہ کے حوالے کرتے ہوئے عرض کیا کہ اب میری جگہ ذکی الدین کو سمجھئے اور مجھے اب اللہ کی یاد میں آزاد فرمائیے۔والدہ ماجدہ نے بخوشی اجازت دے دی اور آپ تلاش پیر کے لئے دہلی تشریف لے گئے دہلی پہنچ کر حضرت مخدوم الملکؒ وہاں کے مشائخین سے ملے اور ان کی وعظ و تدریس کی مجلسوں میں شرکت کی لیکن آپ متاثر نہ ہوئے۔پھر آپ نے حضرت محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاءؒ سے جو کہ اس وقت قطب دہلی تھے ملاقات کی۔حضرت مخدوم الملکؒ سے حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے سید ضمیر الدین عظیم آبادی’’سیرت الشرف‘‘ میں لکھتے ہیں
’’مشاہیر دہلی سے ملنے کے بعدمخدوم حضرت نظام الدین اولیا کے یہاں جو اس وقت قطب دہلی تھے حصول بیعت کی نیت سے حاضر ہوئے اس وقت شیخ کی مجلس میں کچھ مذاکرۂ علمی تھا،مخدوم بھی اس میں شریک ہوئے اور تقریر پسندیدہ کی۔شیخ نے آپ کا اعزاز و اکرام کیا مگریہ کہکر’سمر نیست کہ نصیب دام ما نیست‘بیعت نہیں لی اور ایک بیڑہ پان کا دے کر رخصت کیا۔‘‘
حضرت مخدوم الملک دل برداشتہ پانی پت تشریف لے گئے اور حضرت مخدوم شرف الدین قلندر پانی پتی ؒ سے ملے مگر یہ فرما کر کہ شیخ ہیں مگر اپنے حال میں مست وہاں سے بغیر بیعت ہوئے واپس ہو گئے۔آپ کے بڑے بھائی حضرت شیخ کمال الدین جو آپ کے ہمراہ تھے دہلی میں حضرت پیر نجیب الدین فردوسی ؒ کے یہاں حاضری کا مشورہ دیا،حضرت مخدوم الملک پہلے تو تیار نہ ہوئے لیکن بہت اصرار پرحضرت پیر نجیب الدین فردوسی ؒ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کو تیار ہوئے۔ حضرت مخدوم الملک ؒ کا حضرت پیر نجیب الدین فردوسی ؒ کے یہاں حاضری کے وقت کا یہ عالم تھا کہ دہشت سے پسینے سے تر بتر تھے۔ سلام کے بعد آپ نے بیعت کی درخواست کی شیخ نے قبول کیا اور بیعت کے بعد اندر تشریف لے گئے اور اجازت نامہ و خرقہ وغیرہ لاکر دیا۔حضرت مخدوم الملک ؒ نے عرض کیا ابھی تو میں نے کچھ خدمت بھی نہیں کی اور اس راہ کے اسرار و رموز سے واقف بھی نہیں ہوا۔ حضرت پیر نجیب الدین ؒ نے فرمایا کہ یہ اجازت نامہ بارہ سال قبل حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کے حکم سے تمہارے لیے لکھ کر رکھا ہے،روح نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم براہ راست تمہاری مربی ہوگی۔
بیعت کے بعد شیخ کے حسب الحکم وطن کی طرف سفر کیا راستے میں شیخ کے وصال کی خبر ملی لیکن حسب وصیت گھر کی طرف سفر جاری رکھا۔ دل محبت الٰہی سے سرشار اور محبت پیر میں مست و مخمور تھا کہ بہیا کے جنگل میں مور کی کوک سنائی دی اور آپ نے ضبط کی تاب نہ لاتے ہوئے نعرۂ حق بلند کیا اور جنگل کی راہ لی،ساتھ میں جو لوگ تھے حیران و پریشان دیکھتے رہ گئے۔ بھائی نے تلاش کیالیکن کچھ پتہ نہ لگابا لآخر تبرکات شیخ لے جا کر ماں کی خدمت میں امانتاً پیش کردیا۔
حضرت مخدوم الملک ؒ بارہ برس تک بہیا کے جنگل میں رہے،بارہ برس بعد آپ راجگیر کے جنگل میں دیکھے گئے،پھر بہت دن بعد آپ کو ایک شخص نے اس عالم میں دیکھا کہ آپ ایک درخت کی ٹہنی پکڑے آسمان کی طرف محو حیرت تک رہے ہیں اور چیو نٹیاں منہ سے آجا رہی ہیں اور آپ کو اس کی مطلق خبر نہیں۔ بالآخر لوگوں کو حضرت مخدوم الملک ؒ کی موجودگی کا علم ہوا اور لوگ جنگلوں میں جاکر آپ سے ملاقات کرنے اور آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے لگے۔راجگیر میں پہاڑی کے دامن میں حضرت مخدوم الملک ؒ کا حجرہ ہے اور اس حجرہ کے قریب ہی ایک جھر نا ہے جو مخدوم کنڈ کے نام سے مشہور ہے اور مرجع خلائق ہے۔ حضرت مخدوم الملک ؒ نے جب لوگوں میں طلب صادق دیکھا تو ہر جمعہ کو لوگوں کے اصرار پربہار شریف تشریف لانے لگے اور لوگ آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے لگے۔
سلطان محمد شاہ تغلق کو دہلی میں جب آپ کے بہار میں تشریف فرما ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے آپ کے لئے خانقاہ تعمیر کرانے کا حکم دیاجاء نماز اور کچھ جاگیریں آپ کو تحفتاً بھجوائیں جو آپ نے بڑے پس و پیش کے بعد قبول کر لیں،خانقاہ تعمیر ہوئی اور آپ اس میں مستقل سکونت پذیر ہوئے،آپ کے بہارشریف میں مستقل قیام کے بعد آپ کی والدہ اور آپ کے صاحبزادے بھی آپ ہی کے زیر سایہ آگئے اور مریدین و متوسلین کا مجمع رہنے لگا۔
۵ شوال ۷۸۲ھ دن گزار کے شب میں نماز عشاء کے وقت حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری ؒ وصال ہوا۔نماز جنازہ حضرت اشرف جہانگیر صمدانی ؒ نے پڑھائی جو کہ حضرت مخدوم الملک ؒ سے بیعت کی نیت سے حاضر ہوئے تھے لیکن حضرت مخدوم الملک ؒ کا انتقال ہو چکا تھا۔سال وصال ان دو الفاظ ’’پر شرف ‘‘ سے نکلتا ہے۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں