بیادگار تاج العرفان حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ و حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ؞؞؞؞؞؞خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کی مطبوعات کے آن لائن ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ آئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞

ہفتہ، 1 فروری، 2014

حضرت خو ا جہ اجمیری کاذوق سماع

محمد آیت اللہ قادری ،خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
سماع کی تعریف میں چشتی بزرگوں نے بہت کچھ لکھا ہے جس کے لئے بڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ یہاں میں سماع کے بارے میں چند باتیں اختصار سے عرض کرونگا۔
سماع کے لغوی معنی ذکر کے ہیں یعنی یاد کرنا ۔ تصوف میں بھی سماع کے یہی معنی ہیں ۔ چونکہ سماع کا مفہوم نفس میں موجود ہوتا ہے جس سے سامع پر حسب استطاعت ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
سماع کے کئی درجے مقرر کئے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ سامع کے خیالات و جذبات یکسو ہوکر خدا اور رسول کی طرف رجوع ہوجائیں اور روح میں پاکیزگی پیدا ہوجائے۔ دوسرا اور خاص درجۂ سماع یہ ہے کہ سننے والا ماسوا سے بے خبر ہوجائے اور معشوق حقیقی اللہ تبارک تعالیٰ کے عشق میں گم ہوجائے اور معرفت کے میدان میں پہنچ جائے اصلی سماع یہی ہے۔
یہ کہ سماع یا قوالی کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہٗ نے رکھی ہے درست نہیں ، لیکن یہ امر کہ خواجہ غریب نواز نے سماع اور قوالی کو دینی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ایک حیران کن حقیقت ہے بلکہ آپ کے اختیار کردہ ذوق سماع نے امت کو ایک طربناک مزاج عطا کردیا ہے۔ اس مزاج نے بلاد عرب کے علاوہ عجمی علاقوں میں اسلام کو جتنا فروغ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ خواجہ غریب نواز سے قبل کے دور میں ہم خلفائے بنوامیہ اور خلفائے بنی عباس کے عیش و نشاط کی محفلوں میں نغمہ سماع کا ایک ہنگامہ دیکھتے ہیں ۔ علماء نے کوئی قطعی فتویٰ اس باب میں عدم جواز کا نہیں دیا لیکن طریقت والوں نے اپنے اپنے حلقہ میں جب سماع کو رواج دیا تو بعض فقیہوں نے مزامیر کی بحث پر سماع کو ناجائز قرار دیا ۔ اس دور میں حضرت امام غزالی نے سماع اور نغمہ پر ایک مبسوط بحث فرمائی اور یہ ثابت کیا کہ خوش لحنی اور نغمہ کسی اعتبار سے بھی حرام نہیں ہوسکتا ہے۔ عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ انہوں نے حضور اکرم ا کے واقعہ دف سے بھی جواز کا استنباط فرمایا ہے۔ واقعہ مشہور ہے کہ مدینہ منورہ میں لڑکیوں نے نبی کریم ا کے ورود مسعود پر عشق رسولؐ کے عالم میں ’’طلع البدر علینا الخ‘‘ دف پر گایا تھا اور حضور ا نے سماعت فرمایا تھا ۔ امام غزالی کی بحث کے بعد علماء فقہ کے دو گروہ اس وقت ہوگئے تھے ، ایک طبقہ جائز قرار دیتا تھا اور دوسرا مکروہ لیکن یہ جتنی بحث بھی ہے وہ سماع اور نغمہ کے جواز اور عدم جواز پر ہے۔ یعنی جو طبقہ جائز سمجھ کر نغمہ و سماع سے لطف اندوز ہواکرتاتھا وہ طبقہ بھی کبھی یہ نہیں سوچ سکا کہ معاشرت عالم میں جو ایک ذوق نغمہ کارفرما ہے اس سے فائدہ اٹھاکر نغمہ پرستوں ہی کے ذریعہ منقلب الحال کیا جاسکتا ہے اور سرتاسر زندگی متغیر کی جاسکتی ہے۔
خواجہ غریب نواز نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ چھٹی صدی ہجری کی دنیا میں غیر اسلامی معاشرہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں کے باطل پرستوں کی پرستش کے طریقوں میں نغمہ و لحن اور موسیقی کو اس حدتک دخل نہ حاصل ہو کہ وہ اپنے نظریات تو بدل سکیں گے لیکن اپنا ذوق کماحقہ تبدیل کرلینا ان کے امکان سے باہر ہے تو آپ نے ’’آہن بہ آہن تواں نرم کرد‘‘ کے مصداق ذوق سماع کو اپناکر بجائے خود نغمہ و سماع کی تطہیر فرمادی ۔ چنانچہ جب آپ ہندوستان تشریف فرما ہوئے اور اس ملک کی برہمنی فضاؤں کو روح میں نغمہ و سخن کی آبپاشی پائی تو وقت کا مؤرخ بتاتا ہے کہ کس طرح شمار و تعداد سے باہر اہل ہندو قتیل نغمہ ہوکر چشتیوں کے دام تبلیغ کے اسیر ہوکر رہے ۔ کیا کہئے گا اس نغمہ کی سرمستیوں کو جو ہزارہا معبودان باطل کی پرستش سے چھڑا کر ایک الٰہ العالمین کے آگے سربسجود کردے۔
یاد آتاہے کہ جب کائنات ہست کے مبلغ اولین وآخرین نے اپنے ایک رفیق کو اشاعت دین کے لئے مامور فرماکر رخصت کیا تھا ۔ کئی صدیاں گزرجانے کے بعد اسی آستانہ رسالت اور بارگاہ نبوت سے ایک عظیم مرد خداداں و خدا بین کرۂ ارض کے سیاہ ترین خطہ ہند کی ہدایت کے لئے مامور و فائز المرام کرکے روانہ کیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی سرگوشی کے بطور اجتہاد کے منصب کی جانب اشارہ کرے تو جواب میں بجز اس کے کہ ذہن انسانی و جد و کیف کے عالم سے گزرجائے اور کیا ہوگا؟
مزید یہ کہ خواجگان چشت رحمہم اللہ کے اخبار و افکار میں متعلقین کے لئے سماع کے جوآداب ضروری ہیں ان کو برقرار رکھ کر قوالی سننا کچھ سہل کام نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخ چشت کی بارگاہ میں جو لوگ بہ نیت اعتراض اور بہ عزم شر پہنچا کرتے تھے رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا رنگ بدلتا چلا گیا اور ایک وقت ان پر ایسا بھی گزرا کہ سرتاسر انہیں اپنے آپ کو چشتی سانچہ میں ڈھال لینا پڑا ۔
ہندوستان میں ایسے بزرگ بھی ہوئے ہیں جو چشتی مسلک سے محض سماع کی بنیاد پر اختلاف رکھتے تھے لیکن آخر حال انہوں نے اپنا سر چشتی آستانوں پر خم کردیا اس نوع کے بزرگوں میں سیدنا ابوالعلا رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور ہیں اپنے خیالات پر نہ صرف یہ کہ پشیمان ہوئے بلکہ باطنی طور پر خواجہ غریب نواز نے انہیں خلافت سے بھی نواز ا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلہ کے ارادت مند محافل سماع میں غلو کے ساتھ رقص و وجد کرتے ہیں۔
جہاں تک خواجہ اجمیری کی مجالس سماع کا تعلق ہے ان کی حیثیت مختلف ہواکرتی ۔ تذکروں سے پتہ چلتا ہے کہ جب کبھی اپنے چند ارادت مندوں کے ساتھ ہوتے اور سماع کا آغاز ہوتا توخواجہ غریب نواز پر کئی شبانہ روز کیفیت طاری رہتی اور رفقاء کے لئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوتا کہ آپ کا عالم وجد مقدس روح کو جسم میں باقی رہنے دے گا کہ نہیں؟
حضرت قطب الاقطاب خواجہ بختیار کاکی نے جو کوائف آپ کے عالم وجد میں مشاہدہ کئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر نعمت و کیفیت کا ظرف و زمین سے کتنا گہرا تعلق ہے ۔ زمین جس درجہ کی ہوگی گلکاریاں بھی اسی درجہ کی ہوں گی ۔ ایک مشاہدہ جلوہ ہی کو لیجئے حضرت موسیٰ ں تجلی کے ایک گریزاں لمحات کو برداشت نہ کرسکے اورحضور اکرم ا بہ فضل و کمال عروج پاکر مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ قبول وحی و کلام خلوت کدہ تقریب میں اس طرح ہوتا ہے کہ آج تک دنیا اپنے فہم بے کمال کے ساتھ سرگرداں و حیران ہے اور کچھ بھی نہ سمجھ سکی غرض یہ کیفیاتی عالموں کا کوئی شمار اور حد تو ہے نہیں کہ احاطہ کیا جائے، البتہ نغمہ پر اس اعتبار سے بھی غور کرنا چاہئے کہ خود نغمہ کیا شئی ہے ، کم از کم یہ سمجھئے کہ نور اپنے مظاہر میں حسن صورت ہے کہ بصارت کو اس کے ادراک کا ذریعہ دیا گیا ۔ نور ہی اپنے مظاہر میں نغمہ ہے کہ جسے سماعت ادراک کرے۔ دونوں حاشیئے جو اطلاع بھی پہنچاتے ہیں روح اس سے حسب حیثیت متاثرہوتی ہے اور روح کی اثر پذیری کو پورے حواس پر محیط سمجھنا چاہئے۔
سماع کے باب میں عجیب معاملہ ہے جب تک یہ غلط ہاتھوں میں رہی نامسعود رہی جب اللہ والوں نے اپنایا تو مبارک مبارک ۔ بات یہ ہے کہ شئی جب اپنے اصل میں ہو یا ادراک کرلی جاسکے تو کوئی حجاب وارد نہیں کیا جاسکتا۔ خواجہ غریب نواز نے نغمہ کو تمام اعتبارات کے حجاب سے معرا محسوس کیا اور شدت احساس نے مادۂ جسمیت کو بارہا متزلزل کرکے رکھ دیا ۔ دوسری جانب دیکھا جاسکتا ہے کہ نغمہ اپنے فنی ضوابط سے بعض طبائع پر کس طرح اشتعال نامبارک کا باعث بنتا ہے گویا بقول حضرت امام غزالی یہ سمجھنا چاہئے کہ سماع جس شخص میں جو کچھ موجود ہے اسی کو ظاہر کردینے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
چشتی بزرگوں کے ہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حالت سماع میں صاحبان وجد واصل بحق ہوگئے ہیں اور موجودہ عہد میں بھی اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ اب یہ کہنا کہ کیفیت سماع انقطاع روح کا باعث کیونکر ہوسکتی ہے تو یہ عرض کیا جائے گا کہ نہ جانے کتنی کیفیاتی حقیقتیں ہیں کہ جن کے اظہار پر گمان وبیان کو قدرت نہیں ہے ۔ وقوعہ دراصل حیران کن کم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی صاحب اثر اپنے باطن کے احوال کا پرتو بزم پر ڈال سکے ۔ یہ فیض نظر ہے خواجہ غریب نواز کا کہ آج بھی ایسے بزرگ موجود ہیں جنہوں نے محض ارباب ظاہر کو مجلس سماع میں پایا تو اپنی نگاہ کی جلوہ طرازیوں سے یکسر صورت بزم منقلب کرکے رکھ دی ۔ جمال دوست کی محویت جن صاحبان کمال کو نغمہ کی نرم و نازک شمشیر سے شہید کردے ان کے قلوب کا گداز اور ان کے دلوں کی رقت کے باب میں کون اپنی زبان کھول سکے گا۔
حضرت قطب الاقطاب بختیار کاکی نے خواجہ غریب نواز سے اگر ذوق سماع کا اکتساب کیا تو یہ کہتے ہوئے واصل الی اللہ ہوگئے کہ :
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
فریادرس فریادرس
محمد آیت اللہ قادری
اے خواجۂ جود و سخا فریادرس فریادرس
اے شمعِ بزمِ اولیاء فریادرس فریادرس
اے نورِ عینِ مصطفا فریادرس فریادرس
وے مظہرِ شیرِ خدا فریادرس فریادرس
نالم برائے مرتضیٰ فریادرس فریادرس
وز پے شہیدِ کربلا فریادرس فریادرس
آید نسیمِ روضۂ یثرب بہ صحن روضہ ات
اے آفتابِ اصفیاء فریادرس فریادرس
حور و ملک بر آستاں جن و بشر بر درگہت
محبوبِ محبوبِ خدا فریادرس فریادرس
ایں غنچۂ مقصودِ من را کن شگفتہ از کرم
بہرِ نظامِ اولیاء فریادرس فریادرس
امید می دارم ز فیضانِ تو اے ہندالولی
فرمانروائے چشتیا فریادرس فریادرس
آیتؔ بگردِ روضۂ اجمیر دیوانہ شدہ
دارد ز تو یک التجا فریادرس فریادرس

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں