بیادگار تاج العرفان حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ و حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ؞؞؞؞؞؞خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کی مطبوعات کے آن لائن ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ آئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞

جمعہ، 10 اپریل، 2015

Nasab Nama

طاہر
مبشر تمیم زنیرہ تحسین تسنیم خبیب صہیب
 خبیب صہیب
اشہب شبرہ ماحی حذیفہ عکاشہ صفاح
تحسین  تسنیم
اقصیٰ صحبہ اسریٰ عبد اللہ یمنیٰ
 مبشر تمیم
حرا مقتدیٰ ملتزم محتشم مشکاة یوحیٰ یوشع


اتوار، 5 اپریل، 2015

نعت




( بہ شکریہ المجیب، پھلواری شریف)

نمی دانم چہ منزل

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

از:ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

نمی دانم چہ منزل بود،  شب جائے  کہ  من   بودم 
بہ ہر سُو     رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
(مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔)

پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے 
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم
(پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔ )

رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں 
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم 
(رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔ )

خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو 
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
(اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد صلی الله و علیہ وسلم اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔ )



حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی

حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی ؒ
شاہ ہلال احمد قادری،
خانقاہ مجیبیہ ،پھلواری شریف

حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی ؒ سجادہ نشیں خانقاہ برہانیہ کمالیہ ،حضرت دیورہ کے سانحہ ارتحال کو ایک عرصہ بیت گیا لیکن موصوف نے اپنی شخصیت کا جواثر چھوڑا ہے وہ مخلصین کو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔شاہ صاحب ضلع گیا کی ایک قدیم بستی’اوساس دیورہ کے صوفی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے،ممکن ہے ہندوستان کے مرکزی شہروں سے دور اور جنوبی بہار میں واقع اس چھوٹے سے قصبے کو بہت سے لوگ نہ جانتے ہوں لیکن ہندوستان کی بیشتر تاریخ ساز شخصیتیں ایسے ہی چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کی خاک سے اٹھی ہیں اوراپنے کمالات علم وفن کی بدولت زمانے پر گہرا اثر ڈالا ہے۔دیورہ ایک ایسی ہی قدیم بستی ہے،جہاں علم و معرفت کی ہمیشہ آبیاری ہوتی رہی ہے،بڑے بڑے باکمال یہاں پیدا ہوئے اور اس قصباتی فضاؤں میں پلے بڑھے، یہیں رہ کر انہوں نے علم کی اشاعت کی،تصوف کی تعلیمات کو عام کر کے لوگوں کی اصلاح قلوب کا فریضہ ادا کیا اور ہندوستان کے مرکزی شہروں میں علم کی خدمت کرنے کیلئے افراد تیار کیے۔
دسویں صدی ہجری میں جبکہ سرزمین ہند شیر شاہ سوری جیسے اولوالعزم بادشاہ کے زیر نگیں تھی،حضرت جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی قدس سرہ کے خانوادے کے ایک بزرگ حضرت مخدوم برہان الدین اخوند میاں ؒ (المتوفی980ھ) سیر و سیاحت کرتے ہوئے تشریف لائے اور دیورہ میں اقامت اختیار فرمائی۔آپ کی آمد دیورہ کے لئے بڑی مبارک ثابت ہوئی۔آپ کی اولاد میں علماء ،فضلاء و صوفیا پیدا ہوتے رہے۔حضرت شاہ کمال علی دیوروی ؒ اس خانوادے میں آفتاب و ماہتاب تھے۔ان کی عظمت علمی و روحانی نے خانوادے میں چار چاند لگا ئے اور اس کی شہرت کو اوج کمال تک پہنچادیا۔
اس خانوادے کا نسبی تعلق حضرت امیر المومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہے۔نسبت روحانی حضرت سلطان المحققین مخدوم سید الشیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سے ہے،مخدوم شاہ برہان الدین خوند میاں اور شاہ کمال علی رحمہما اللہ کے تعلق سےدیورہ کی خانقاہ ،خانقاہ برہانیہ کمالیہ سے موسوم ہوئی۔
خاندان امیر عظاء اللہ جعفری زینبی پھلواروی سے اس خانوادے کے قریبی تعلقات رہے ہیں،وہ اس طرح کے شاہ غلام علی صاحب کی پوتی ملا فصیح الدین جعفری پھلواروی کے پوتے مولوی نصیر الدین سے بیاہی تھیں۔مولوی نصیر الدین صاحب کے صاحبزادے محمد امین تھے،مولانا شاہ محمد امین کی پوتی کی شادی مولانا شاہ محمد علی سملوی ؒ سے ہوئی،ان سے حضرت مولانا شاہ ابوالحسن شہید فردوسی تھے۔
شاہ کمال علی صاحب کے وصال کے بعد مسند سجادگی پر ان کی ماموں زاد ہمشیر کے پوتے مولانا شاہ انور علیؒ بیٹھے،کیونکہ شاہ کمال علی ؒ کو کوئی اولاد ذکور نہیں تھی۔مولانا شاہ انور علی ؒ شاہ محمد امین بن مولوی نصیر الدین بن ملا صبیح الدین بن ملا فصیح الدین پھلواروی کے صاحبزادے تھے۔شاہ انور علی صاحب کو کوئی اولاد نہیں تھی انہوں نے اپنی حیات میں حضرت شاہ ابو الحسن شہید ؒ کو خانقاہ برہانیہ کمالیہ کی سجادگی تفویض کردی۔اس طرح رشد و ہدایت کا سلسلہ دیورہ کی خانقاہ سے برابر جاری رہا اور مسند ارشاد پر ہر زمانے میں جامع علم و عرفان بزر گ متکمن ہوتے رہے۔حضرت مولانا شاہ ابو الحسن شہید ؒ اپنے زمانے کے ممتاز بزرگو ں میں تھے۔دیورہ اور سملہ کے لوگوں کو آپ کی نسبی اور روحانی دونوں نسبتیں حاصل ہیں۔آپ کی ذات دیورہ اور سملہ کی خانقاہ کا نقطۂ اتصال ہے۔سلسلہ فردوسیہ کے فیوض و برکات دونوں خانقاہوں میں آپ ہی کے واسطے سے پہنچے ہیں۔
حضرت شاہ ابوالحسن شہید ؒ کی شادی پھلواری شریف میں حضرت مولانا شاہ محمد ہادی بن سید العلماء مولانا سید احمدی قادری کی صاحبزادی بی بی وصیت النساء سے ہوئی تھی،ان سے آپ کے پانچ صاحبزادے ہوئے۔ مولانا شاہ مجیب الحق کمالی،مولانا شاہ فدا حسین،مولانا شاہ علی عظیم ،مولانا شاہ مظہر سعید ،مولانا شاہ عبد الحق رحمہم اللہ تعالیٰ۔
پھلواری خانقاہ سے اس قرابت قریبہ کی بنیاد پر ان دونوں خاندانوں میں گہرے تعلقات رہے اور آمد ورفت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔حضرت شاہ مجیب الحقؒ اورحضرت شاہ فدا حسین ؒ حضرت مخدوم جہاں ؒ کے عرس میں بہار شریف آتے تو اختتام عرس کے بعدپھلواری ضرور تشریف لاتے اور موئے مبارک ﷺ کی زیارت کرکے واپس ہوتے۔حضرت اقدس فیاض المسلمین مولانا سید شاہ بدرالدین قادری قدس سرہ اس رشتے کا بہت خیال رکھتے تھے،کیونکہ حضرت شاہ ابوالحسن شہیدؒ آپ کے پھوپھا تھے۔مولانا حکیم شاہ ابراہیم فردوسی ؒ ،شاہ فدا حسین ؒ کے چھوٹے صاحبزادے تھے،حضرت شاہ فدا حسین ؒ خانقاہ برہانیہ کمالیہ کے صاحب سجادہ تھے۔آپ کے انتقال کے بعدجناب حکیم شاہ ابراہیم فردوسی ؒ جانشیں ہوئے۔
جناب شاہ منصور احمد فردوسی ،اپنے والد حضرت شاہ ابراہیم فردوسی ؒ کے مرید و مسترشد اور خلیفہ و مجاز تھے۔ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی پھر کچھ دنوں مدرسہ قاسمیہ گیا میں بھی پڑھا۔حصول علم کے ذوق نے آپ کو جامعہ نعیمیہ مراد آبادپہنچایا۔جامعہ نعیمیہ سے ہی فارغ التحصیل ہوئے،آپ کے والد ایک اچھے طبیب بھی تھے،اس لئے فن طب کی تحصیل کا خیال بھی پیدا ہوا۔پٹنہ بہ نسبت لکھنؤ اور دہلی کے زیادہ قریب تھا،اس لئے طبیہ کالج پٹنہ میں داخلہ لیا اور پٹنہ میں اپنی تعلیم پوری کی اور طبیہ کالج سے طبابت کی سند لی۔
شاہ صاحب علیہ الرحمۃ طبقۂ مشائخ سے تعلق رکھتے تھے،انہوں نے ایک ایسے مکتبۂ فکر سے تعلیم حاصل کی تھی جو مسلکی تعصب و تشدد میں مشہور ہے ،لیکن ان پر تصوف کا رنگ غالب تھا،طبیعت میں سلامت روی اور مسلک میں اعتدال پایا جاتا تھا۔خاندان میں مقبول و محبوب تھے لوگ ان کی نسبت سجادگی سے زیادہ ان کے اوصاف حسنہ اور اخلاق فاضلہ کی بنا پر ان کا احترام کرتے تھے۔سملہ عرس میں جب بھی خاکسار کا جانا ہوتا تھا شاہ صاحب سے ملاقات ہوتی بڑی محبت سے پیش آتے، ہمدردی اور محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔سب کا درد محسوس کرتے اور لوگوں کی فکر سے فکر مند ہوتے تھے،خاکسار سے ان کا رشتہ خوردی و بزرگی والا تھا،خاکسار کی نانی صاحبہ بی بی فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا اسی خانوادہ کی تھیں اور حضرت شاہ ابو الحسن شہید ؒ کے بڑے بھائی کی پوتی اور ان کی حقیقی نواسی تھیں، اسی لیے شاہ منصور صاحب کی پھوپھی ہوئیں،اس رشتہ سے خاکسار ان کو ماموں کہتا تھا، اور وہ بھی بہت شفقت سے پیش آتے اور اپنی سادہ مزاجی کی وجہ سے بے تکلفی سے گفتگو فرماتے۔ اکثر بہار شریف میں عرس مخدوم جہاں ؒ کے موقع پر ملاقات ہوتی تو سب لوگوں کی خیریت پوچھتے،برادری کے انہی حقوق کی بنا پر فرماتے کہ’’ دیورہ آؤ، تم لوگ نہیں آتے ہو‘‘افسوس کہ ان کی حیات کا سفر تمام ہوا ،لیکن دیورہ جانے کی توفیق نہ ہو سکی۔
بڑے عالی ظرف تھے، ان کی مندگی کا ایک دور بہت ہی سخت گذرا جو با لعموم ایسے نیک طینت اور پاک باطن مشائخ پر گزرتا ہے لیکن زبان سے اف نہیں کیا، اپنی اسی درویشانہ زندگی پر قانع رہے، گفتگو میں کبھی حالات کی نا مساعدت اور زمانے کی نیرنگی کی شکایت نہیں کرتے تھے، ان کی کسی بات سے اندازہ مہیں ہوتا تھا کہ ان کی زندگی تنگی و ترشی کے ساتھ گزر رہی ہے۔
انسان کی زندگی میں حوادث آتے رہتے ہیں اور ان ہی حوادث اور مصائب پر صبر کرکے وہ ابتلا اور آز مائش میں پورا اترتا ہے،جناب شاہ صاحب کی زندگی میں مشکلات زیادہ تھیں آسانیاں کم۔لیکن ان کے داماد کے انتقال کا حاد ثہ بڑا سخت تھا، اس کا ان پر بہت اثر ہوا،نواسے نواسیوں کی پرورش کی ذمہ داریوں نے ان کی صحت کو سخت متاثر کیا،لیکن اس کے باوجود انہوں نے جس صبر جمیل کا مظاہرہ کیا وہ ان ہی کا کام تھا، کم سخن اور خاموش طبیعت کے آدمی تھے اور اختلاف و نزع سے دور رہتے تھے۔ 
اخلاقی خوبیوں کے ساتھ علمی فضیلت سے بھی ان کی شخصیت مزین تھی، جہاں تک مجھے معلوم ہے فارغ التحصیل ہونے کے بعددرس و تدریس کا سلسلہ نہیں رکھا لیکن ان کا علم ہمیشہ تازہ رہا ،کیونکہ مطالعہ و کتب بینی تا حیات نہیں چھوڑا ۔ جب جب ان کی علمی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا، اندازہ ہوا کہ مطالعہ عمیق اور معلومات وسیع ہیں،راقم الحروف سے بہت محبت کرتے تھے اس لیے راقم ان سے شوخ بھی تھا۔ اور کبھی علمی گفتگو میں ایک فریق بن کر ہلکی پھلکی بحث بھی کر لیتا تھا۔انہوں نے کبھی اس کا برا نہیں مانا بلکہ خوش ہوتے تھے۔فقہی موضوع ہو یا تاریخی، مسلک و مشرب کی باتیں ہوں یا شعر و ادب کی، ہر موضوع پر اچھی گفتگو کرتے تھے۔
ان کی کوئی تحریر میری نظر سے نہیں گزری،لیکن علمی ذوق مسلم تھا،کسی نئی کتاب پر مطالعہ کے بعد جو رائے دیتے وہ قیمتی اور صائب ہوتی تھی، ان کے چھوٹے بھائی شاہ انور علی عثمانی نے انوار کمال مرتب کی تو اس میں ان کی رہنمائی شامل رہی،اپنے اسی علمی ذوق کی بدولت دیورہ میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کرنے کیلئے ایک ادارہ ’’انوار البرہان ‘‘قائم کیا۔دیورہ میں ایک مدرسہ بھی ان کے زیر سرپرستی چل رہا تھا،جو بحمد اللہ اب تک قائم ہے۔فن طب میں بھی دستگاہ رکھتے تھے،امراض و علاج کے سلسلہ میں لوگ ان سے مشورے کرتے تھے۔ا ن کے علاج سے لوگوں کو بہت فائدے پہنچے۔
علامہ اقبال نے اپنے زمانے کا رنگ دیکھ کر کہا تھا 

خدا وندا!یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے ،سلطانی بھی عیاری

یہ ایک المیہ ہے کہ مکر و فریب کے دام ہم رنگ زمین سے مشائخ اور صوفیں کا طبقہ بھی محفوظ نہیں رہا،پیری و مریدی کو ایک پیشے کی حیثیت دے دی گئی ہے، طالبان حق تلاش حق میں سرگرداں ہیں اور مظلوم داد فریاد کے لئے حکمرانوں سے مایوس ہو چکا ہے، عدل و انصاف کی باتیں کتاب رہ گئی ہیں ۔صوفیوں کے اخلاص ، ہمدردی ،ایثار اور خدمت خلق کی باتیں قصۂ ماضی بن چکی ہیں 

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ

ایسے دور ظلمت میں چند اللہ والے رہ گئے ہیں، جنہوں نے تصوف کی آبرو بچا رکھی ہے اور یہ بڑی بات ہے۔حضرت مولانا شاہ منصور احمد فردوسی ان ہی مشائخ کی صف میں تھے، انہوں نے مشیخت کے وقار اور تصوف کے معیار کو قائم رکھا، اپنے مریدوں کی تربیت اور اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے اور حضرت مخدوم جہاں ؒ کے روحانی سلسلے کو اور اس کی تعلیمات کو پھیلانے کی کوشش جاری رکھی۔ 
افسوس ان کی عمر نے وفا نہ کی، ابھی ان کے جانے کی عمر نہ تھی، لیکن وقت موعود آچکا تھا،جس طرح خاموشی اور صبر و قناعت کے ساتھ زندگی گزاری،اسی طرح خاموشی اور صبع و قناعت کے ساتھ زندگی گزاری اسی طرح خاموشی کے ساتھ عالم بقا کی طرف روانہ ہو گئے۔فجر کی نماز پڑھ کر لیٹے اور بڑے ہی سکون و اطمنان کے ساتھ جان جان آفریں کے سپرد کردی

سبک بار مردم سبک تر ردند
اعلی اللہ مقامہ و تعذہ بفقرانہ

حادثہ رحلت 8 رمضان المبارک1415ھ جمعرات کو صبح کے وقت پیش آیا۔تدفین دوسرے دن بعد نماز جمعہ ہوئی،دیورہ کے اس قبرستان میں مدفون ہوئے جہاں ان کے اکابر آرام فرما ہیں۔

آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے

ہفتہ، 4 اپریل، 2015

جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل

قاضی سید احمدحسینؒ

جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل
طیب عثمانی ندوی

سر زمین بہار شروع سے ہی بہت مردم خیز خطہ رہا ہے۔اپنی علمی و ادبی ،روحانی و اخلاقی اور سیاسی و انقلابی کارناموں کی وجہ سے یہ ریاست ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ علم و ادب میں جہاں علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا مناظرا حسن گیلانی،مولانا ابو المحاسن محمد سجاد جیسے جید عالم دین و ادب پیدا ہوئے وہیں سیاسی و اجتماعی زندگی میں غیر مسلموں میں ڈاکٹر راجندر پرشاد،جئے پرکاش نارائن جیسے سیاسی مدبر اور مسلمانوں میں مولانا مظہر الحق،مولانا شفیع داؤدی،ڈاکٹر سید محمود اور شاہ محمد زبیر جیسے اہل فکر و سیاست نے اس سرزمین کو رونق بخشی،اسی سرزمین میں جنگ آزادی کے مجاہد جلیل،دین و سیاست اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل جناب قاضی سیداحمد حسین ؒ پیدا ہوئے۔جن کی ہشت پہلو ہمہ جہت شخصیت کا مختصر تعارف اس وقت میرے پیش نظر ہے۔وہ ایک ایسے مرد مومن تھے جن کے دنوں کی تپش اور شبوں کے گداز کوان آنکھوں نے تقریباً دو سال شب و روز خلوت و جلوت میں ساتھ رہ کر دیکھا اور ان کی حکمت و دانائی ،روحانی و اخلاقی فکر و عمل سے فیضیاب ہوا۔ان کی پوری زندگی جنگ آزادی کی جدو جہد، ملک و ملت کی خدمت گذاری اور دعوت دین میں گذری۔ان کی مؤمنانہ بصیرت اور فطری ذہانت ا ن کی پیشانی سے عیاں ہوتی۔قاضی احمد حسین صاحب بہار کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ان کی جائے پیدائش موضع کونی بر، نرہٹ ضلع نوادہ ہے۔ان کے والد قاضی عبد اللطیف صاحب بہار کے بڑے زینداروں میں شمار ہوتے تھے۔خاندان سادات سے ان کا تعلق تھا۔اس خاندان میں قضا کا محکمہ کئی پشت سے چلا آرہا تھا اس لئے قاضی کا لفظ اس خاندان کے نام کا جزو بن گیا۔ آپ کی نانیہال سملہ ضلع اورنگ آباد (بہار) کے عثمانی خانوادہ میں تھی جو شروع سے رشد و ہدایت،تصوف و احسان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔ ان کی والدہ بی بی رحمت اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں جن کا ذوق عبادت اور شوق ریاضت خاندان میں مشہور تھا۔قاضی صاحب کو جہاں دادیہال سے ریاست و خوشحالی ملی تھی،وہیں اپنی نانیہال سملہ کے بزرگوں اور اپنی والدہ سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل ہوئی تھی،اس طرح ان کے مزاج میں سلطانی و درویشی کا حسین امتزاج تھا۔میں نے ان کو دن میں دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں میں مشغول پایا تو راتوں کو اخیر شب میں تہجد گذاری،ذکر و اشغال، اپنے خدا کے حضور میں روتے ،گڑگڑاتے اور آہ و بکا کرتے دیکھا،ایسی جامع شخصیت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
قاضی احمد حسین صاحب ؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔اردو،فارسی،نوشت و خواند اور ساتھ ہی حفظ قران مکمل کیا۔کم عمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔14برس کی عمر میں ہی کاروبار زمینداری کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آگیا،اسی باعث ان کی روائتی تعلیم ادھوری رہ گئی لیکن اپنی خداداد ذہانت اور ذوق مطالعہ سے ان کی علمی صلاحیت بہت بڑھ گئی تھی ۔علماء،شیوخ اور اہل علم و دانش کے درمیان وہ بڑی وقعت اور وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،قرآن مجید سے شغف اور تفاسیر کا مطالعہ ان کا خاص موضوع تھا۔روزانہ مطالعہ قرآن کسی نہ کسی معتبر تفسیر سے کرتے۔فقہ و حدیث،تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہتیں۔ان کے علاوہ مختلف علمی موضوعات پر متنوع علمی مطالعہ ان کا خاص ذوق تھا،جس نے ان کی شخصیت اور فکر و نظر میں وسعت پیدا کردی تھی ، نگہہ بلند ،سخن دلنواز ،جاں پرسوز کے وہ مصداق بن گئے تھے اس طرح میر کارواں بننے کے وہ ہر طرح مستحق تھے۔
عنفوان شباب میں ہی کلکتہ کے انقلابیوں سے ان کا تعلق ہوگیااور ساتھ ہی مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی بہت قریب ہو گئے،مولانا آزاد کا اخبار’’الہلال‘‘ مشرق کے افق سے طلوع ہو چکا تھا،اسی زمانہ میں مولانا آزاد کی تحریک ’حزب اللہ‘ میں بھی وہ شریک رہے۔پھر جب ملک میں خلافت تحریک کا زور ہوا تو وہ بہار میں تحریک خلافت کے روح رواں بن گئے۔مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے ان کا رابطہ ہوا۔اس سے پہلے تشدد چھوڑ کرگاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو بطور حکمت عملی اختیار کر چکے تھے اور گاندھی جی کے ایماء پربمبئی خلافت ہاؤس میں مولانا محمد علی ،مولانا شوکت علی کے ساتھ بھی کچھ دنوں کام کیا،پھر گاندھی جی نے اہلِ بہار کے اصرار پر قاضی صاحب کو بہار واپس بھیج دیا ۔
قاضی صاحب کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے، جب کہ وہ جوان تھے،شوق اور جوش انقلاب میں زمینداری کے سارے کاروبار اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی تعلیم ختم کرکے گھر آگئے تھے حوالہ کرکے بنگال کی انقلابی تحریک میں شریک ہو گئے،اس طرح بنگالی نوجوانوں کے ساتھ تشدد کے ذریعہ انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لئے جنگ آزادی کی جدو جہد میں شریک رہے۔قاضی صاحب تشدد کا راستہ چھوڑ کر عدم تشدد کے اصول پر کانگریس کی تحریک آزادی میں کس طرح شریک ہوئے اس واقعہ کو خود انہوں نے مجھ سے اس طرح فرمایا:اسی زمانہ میں الہ آباد میں گاندھی جی نے کانگریس کا ایک جلسہ بلایا،جس میں ہم بھی شریک ہوئے اس جلسہ میں گاندھی جی نے ایک مختصر تقریر کی لیکن وہ اتنی موثر تھی کہ ہم اور دوسرے نوجوانوں نے متاثر ہوکر تشدد کا راستہ چھوڑ دیا اور پستول پھینک کر گاندھی جی کی عدم تشدد کے ذریعہ کانگریس کی تحریک آزادی میں ہم بھی شریک ہوئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قاضی صاحب کانگریس کے ساتھ تحریک خلافت میں بھی برابر شریک رہے۔اسی دور میں جب ملک میں خلافت تحریک زوروں پرچل رہی تھی،بہار میں قاضی احمد حسین صاحب کے ساتھ متعدد ہندو مسلم رہنماگرفتار کر لئے گئے تو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا مورخہ 22دسمبر1921ء میں لکھا۔
’’کرشن پرشاد ،راج رنگ دت ،رانا شنکر، قاضی احمد حسین گیا کے ،یہ سب رہنما شخصیتیں ڈیڑھ سو رضاکاروں کے ساتھ گرفتار کر لی گئی ہیں۔بہار کی زمین غم و الم بن گئی ہے،یہ حضرات ہندوستان کے سب سے زیادہ بے غرض کارکن ہیں جو خاموشی سے کام کرتے ہیں اور بے غیر ریا اور نمائش کے۔‘‘
جنگ آزادی میں کانگریس ،تحریک خلافت، جمعیتہ علمائے ہند اورامارت شرعیہ بہار سے عملاً متعلق رہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ نے جب امارت شرعیہ بہار کا قیام عمل میں لایا تو قاضی صاحب اس دینی تحریک کے ثانی اثنین بن گئے اور اخیر عمر تک اعزازی طور پر بحیثیت ناظم امارت شرعیہ میں کام کرتے رہے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد جنوری1954ء سے1955ء تک تقریباً دو سال میں امارت شرعیہ بہارسے متعلق رہا۔ ہفت روزہ نقیب پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت مدیر میری تقرری ہوئی اور ساتھ ہی معاون ناظم کی حیثیت سے قاضی صاحب کے ساتھ معاونت میرے فرائض میں شامل تھی۔یہ دو سال میری زندگی کا انتہائی قیمتی دور گذرا ہے۔جس میں مجھے قاضی صاحب کے ساتھ صبح و شام رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ملک کی دینی، سیاسی اور ملی تحریکات کے سلسلہ میں قاضی صاحب سے میں براہ راست مستفید ہوا،ان کے دینی و ملی اور سیاسی تجربے میری زندگی کے حاصل رہے۔
قاضی صاحب کی پوری زندگی ،تحریک خلافت،جمعیتہ علمائے ہنداور امارت شرعیہ بہار کے ارد گرد گھومتی ہے۔اخیر عمر میں وہ امارت شرعیہ بہارکے ہوکر رہ گئے تھے اور ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔دوران گفتگو مجھ سے کہا اور نصیحت کی کہ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ نیو کی اینٹ بنو جس پر پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھتا،واقعہ یہ ہے کہ خود قاضی صاحب اس کے عملی نمونہ تھے، بے غرض و بے ریا،ملک و ملت اور دین کی خدمت کسی ستائش کی تمنا اور صلہ سے بے پرواہ ہو کرانجام دیتے رہے۔کبھی کوئی عہدہ اور ادارہ کی صدارت و نظامت قبول نہیں کی۔امارت شرعیہ کی اعزازی نظامت بھی مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کے اصرار و خواہش اور امارت کی ناگذیر ضرورت کی بنا پر اختیار کی۔بہار میں انڈی پنڈنٹ پارٹی جسے مولانا سجاد نے قائم کیا تھاجس کے روح رواں خود قاضی صاحب تھے بہار کونسل میں کانگریس کے بعد دوسری پارٹی تھی جب وزارت سازی کا وقت آیاتو کانگریس نے بعض مصالح کی بنا پر وزارت بنانے سے انکار کردیا اور گورنر نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کو مدعو کیا،مسٹر محمد یونس بیرسٹر نے جو پارٹی لیڈر تھے وزارت بنائی،قاضی صاحب جو خود کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے وزارت میں شریک نہیں ہوئے اور ہمیشہ نیو کی اینٹ بنے ملک و ملت کی خدمت انجام دیتے رہے۔
جب ملک آزاد ہوا اور نئی پارلیمنٹ بنی تو راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے دہلی کانگریس آفس میں خواہشمندوں کا تانتا بندھ گیا،تقسیم ہند اور آزادی کے بعد حالات بدلے، مسلمانوں کی مرکزی قیادت دہلی میں تھی،کانگریس کی مرکزی حکومت میں ،مولانا آزاد،رفیع احمد قدوائی،ڈاکٹر سید محمود جیسے رہنما،ملت مسلمہ کے مسائل کے ڈور کو سلجھانے اور حل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔،جمعیتہ علمائے ہند،جماعت اسلامی ہند اور تبلیغی جماعت اپنے اپنے دائرے میں ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنی سی کوششیں کر رہے تھے،ایسے میں قاضی احمد حسین جیسے پیکر اخلاص و عمل اور مدبر کی ضرورت دہلی میں رہنے کی تھی ،پھر بھی قاضی صاحب کا خیال راجیہ سبھا کی ممبری کی طرف نہ گیا،بہار میں رہ کر بہار سنی وقف بورڈ کی اصلاح اور امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار کرنے اور اصلاحِ احوال میں لگے رہے۔ایک دن ان کے چھوڈے بھائی قاضی محمد حسین صاحب پھلواری پہنچے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیااور راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔قاضی محمد حسین صاحب ایک پڑھے لکھے علیگ تھے،قومی کاموں میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سرگرم رہے تھے،گیا میں ضلع ڈسٹرکٹ بورڈ کے وائس چیرمین رہ چکے تھے وہ ہر طرح اس عہدہ کے مستحق تھے۔لیکن اس دوڑ میں پٹنہ سے دہلی تک ان کی پہنچ ذرا مشکل تھی۔کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ٹھیک تو ہے تمہاری اہلیت و صلاحیت کی وہاں ضرورت ہے لیکن تم نہیں ہو سکتے ،ممکن ہے ہم ہو جائیں۔قاضی صاحب کا دل فقیرانہ اور مزاج شاہانہ تھا،پٹنہ اور دہلی کی دربار داری ان کے بس کی نہ تھی۔پھر پٹنہ اور دہلی کا چکر لگائے بغیر پھلواری سے بیٹھے بیٹھے،صرف دو سطروں کا خط مولانا آزاد کے نام لکھا’’جی چاہتا ہے کچھ دنوں دہلی میں آپ کی معیت حاصل ہو‘‘۔راجیہ سبھا کی ممبری کا کوئی ذکر بھی نہیں تھامولانا آزاد اپنی ذہانت سے مقصد کو سمجھ گئے اور جواب میں اپنے سکریٹری پروفیسر اجمل صاحب سے کہلوایاکہ ’’جب اس کا موقع اور محل آئے گاتو ہو جائے گا‘‘پھر مولانا آزاد کے ایماء پر قاضی صاحب راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہو گئے اور دو ٹرم رہے۔قاضی صاحب کی راجیہ سبھا کی یہ ممبری با مقصد تھی۔ملک و ملت کی خدمت اور دینی کاموں کی سہولت ان کے پیش نظر تھی۔دہلی میں ان کی قیام گاہ ساؤتھ ایونیوپورے ملک کے مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا مرکز بنی رہتی تھی۔جمعیتہ علمائے ہند کے اکابر،جماعت اسلامی کے محمد مسلم مرحوم مدیر’ دعوت‘ ان کے علاوہ پسماندہ اور پست اقوام کے رہنما اور کارکنان سے ان کا رابطہ رہتاسب کے مشیر اور اچھے کاموں میں شریک رہتے۔اپنی ذات میں ایک انجمن تھے سب سے جدا اور سب کے رفیق۔مرکزی سطح سے پورے ملک پر اپنی فکر صالح کی چھاپ ڈالتے۔پارلیمنٹ میں بھی اپنی بات پہنچانے میں وہ باز نہ آئے۔پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل پر آپ کی تقریر کا بڑا شہرہ ہوا۔کانگریس پارٹی کے اندر پسند نہیں کی گئی لیکن دوسرے حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔قاضی صاحب کا جوش تبلیغ اور دعوت دین کا جذبہ وہاں بھی چین سے نہ بیٹھا 12ربیع الا ول یوم میلاد النبی کے موقع پر عید کارڈ کی طرح سیرت نبوی پر انگریزی زبان میں کارڈ چھپوایا اور اپنی طرف سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام ممبران پارلیمنٹ کے نام آنحضرت ﷺکی سیرت پاک کے تناظر میں اسلام کی دعوت پیش کی جسے عام طور پر سراہا گیا اور قاضی صاحب کی ذہانت و جدت کی بڑی پذیرائی ہوئی۔
قاضی صاحب اس ملک میں دعوت دین کے لئے ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بہت قائل تھے اور اس کے لئے ہر سطح پر کوشاں رہے اس سلسلہ میں پہلے صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد کے نام ان کا ایک خط جیتا جاگتا ثبوت ہے جس سے ان کی ذہانت و دانائی سے لبریز ان کی بہترین تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ مسلمان اگراسلام کی حقیقی روح کو سمجھ لیں اور ہندو اپنے سناتن دھرم کی روایتی رواداری کے حامل ہوجائیں تو ہماری دنیا چین و مسرت کی دنیا بن جائے۔
میں کانگریسی حکومتوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ ہندو مسلمانوں میں اس روح کو بیدار کریں گے جو ہندؤوں کی روایات اور مسلمانوں کے مذہب نے انہیں بخشا ہے۔ میں اس گمشدہ چین و مسرت کو واپس لانے کا خواہشمند ہوں، اگر مجھ سے یہ امید اور خواہش چھین لی جائے تو اس امید سے خالی زندگی میں کوئی لذت نہیں پاؤں گا۔‘‘
(اقتباس از مکتوب قاضی احمد حسین بنام ڈاکٹر راجندر پرشاد)
امارت شرعیہ بہار کی نظامت کے زمانہ ہی میں قاضی صاحب کو تبلیغی جماعت کے طریقہ تبلیغ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور کہا کرتے تھے کہ یہ طریقہ تبلیغ عوامی رابطہ اور اصلاح کا بہترین طریقہ ہے ،چنانچہ انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبۂ تبلیغ کو عملاً اسی طریقہ تبلیغ پر ڈھال دیا تھا۔اپنی کبر سنی،تنفس کی بیماری اور ضعف و نقاہت کے با وجود بستی بستی قریہ قریہ سفر فرماتے، اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ میں عملاً شریک رہتے۔ امت مسلمہ کی دینی اصلاح اور ان کے اندر ایک داعی امت کی صفات پیدا کرنے کی ہمہ جہت کوشش ان کا مقصدِ زندگی تھا،جو زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے ساتھ رہا۔
جناب مولانا منت اللہ رحمانیؒ جب امیر شریعت رابع منتخب ہوگئے تو امارت شرعیہ بہار کے کاموں کی نگرانی براہ راست مولانامنت اللہ صاحب کے ہاتھوں میں آگئی اور قاضی صاحب کی ذاتی دلچسپی زیادہ تر تبلیغی کاموں سے ہو گئی،چنانچہ انہوں نے اس کام کے لئے زیادہ وقت گیا میں گذارنا شروع کیا اور راجیہ سبھا کا سیشن بند ہوتے ہی اکثر گیا چلے آتے تھے۔ان دنوں میں بھی اپنے تعلیمی پیشہ اور ملا زمت کے سلسلہ میں گیا آگیا تھا،اس لئے جب بھی وہ گیا آتے پھلواری شریف کی طرح یہاں بھی میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا،اس طرح ان کے فکری اور روحانی فیضان سے میں برابر مستفیض ہوتا رہا اور مستقبل میں میری اجتماعی زندگی اور دینی تحریکات میں میری عملی شرکت کا باعث بنا۔
29جولائی1961ء میں گیا کے اپنے مکان رحمت منزل میر ابو صالح روڈ میں اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب کے ساتھ ان کا قیام تھا،قاضی صاحب بیمار تو تھے ہی اس دن ان پر قلب کا شدید دورہ پڑا،شہر کے مشہور معالج ڈاکٹر منظور صاحب موجود تھے،علاج معالجہ کی ہر تدبیریں ناکام ہوئیں، وہ ایک مرد مومن کی طرح چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست کی تصویر بنے اپنے رب سے جا ملے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔خدا مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کا یہ بطل جلیل 1918ء سے 1961ء تک ملک و ملت کی تمام تحریکات کا روح رواں،مسلم ہندوستان کی تاریخ کا عملی نمونہ،اخلاص و عمل اور دعوت دین کا پیکر جمیل آج ہم سے جدا ہو گیا۔بقول ایک عرب شاعر:
’’وہ لوگ تو چلے گئے جن کے سایہ میں زندگی گذاری جاتی تھی،وہ لوگ رہ گئے ہیں جن کی زندگی کچھ کارآمد نہیں۔‘‘
دوسرے دن بعد نماز ظہر،گیا کے مرکز تبلیغ محلہ گھسیار ٹولہ کی چھوٹی مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور شہر سے قریب پھلگو ندی کے اس پار آبگلہ کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے

مولانا ابوالکلام آزاد

بیسویں صدی کا ایک نابغۂ روزگار

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد


از طیب عثمانی ندوی

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا تعارف اگر ہم چند لفظوں میں کرانا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں۔ع
مثلِ خور شید سحر فکر کی تابانی میں

شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق
مولانا ابوالکلام کی ذات اپنی جگہ ایک انجمن تھی۔ علم و فضل کی وہ کون سی بلند ی ہے جس کو مولانا کے ذہنِ رسانے نہ پایا تھا،ان کی جادو بیانی کا کوئی ثانی نہ تھا اور حسن انشا میں وہ یگانہ تھے۔ فکر کی تابانی ، یقین کی روشنی اور عمل کی گرمی نے ان کی شخصیت میں ایک دل آویزی و دل کشی پیدا کردی تھی۔ فضل و کمال کی رنگا رنگی، مطالعہ کی وسعت ، عالمانہ رکھ رکھاؤ، پاکیزہ جمالیاتی ذوق ان سب کا اتنا دل کش اور حسین امتزاج مولانا کے اندر پایا جاتا تھا کہ ہم ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ گویا وہ ایک ایسا ’’کل‘‘ تھے جس کے گرد مختلف’ اجزا‘ گردش میں ہوں،شعر و ادب ، مذہب و اخلاق، حکمت و فلسفہ ، سیاست و صحافت ہر جگہ اور ہر کہیں مولانا کی اپنی انفرادیت ، ان کا ذہنی کمال اور فکری عمق اپنی مثال آپ ہے۔ قدرت نے انہیں وہ ذہنی صلاحیتیں و دیعت کی تھیں کہ جس فن پر بھی انہوں نے توجہ کی اسے بام عروج تک پہنچا یا اور دیکھنے والوں کوایسا محسوس ہوا جیسے وہ شاید اسی کے لئے پیدا کئے گئے ہوں۔ شعر وادب پر گفتگو کی توعرفیؔ و نظیری،ؔ متنبی اور بدیع الزماں ہمدانیؔ کی صف میں نظر آئے، حکمت و فلسفہ کی بات کی توابن رشدؔ اور ابن طفیل کی مسند سنبھالی، تصوف و اخلاق کا مسئلہ سامنے آیا تو رومی ؔ اور غزالیؔ بن کر سامنے آئے ، رشد و ہدایت، دعوت و عزیمت اور مذہبی اصلاح و انقلاب اپنا شعار بنایاتو وقت کے ابن تیمیہ اور ابن قیم ثابت ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا مرحوم جیسی علمی فضیلت ، ذہانت و عبقریت اور اسلامی علوم و فنون پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ، اس وقت کی اسلامی دنیا میں کوئی اور نظر نہیں آتی، انیسویں صدی کے اواخر او ر بیسویں صدی کی ابتدا میں اسلامی دنیا نے دوعظیم مجاہد اور فاضل پیدا کئے ، میری مراد جمال الدین افغانی اور مفتی محمد عبدہ سے ہے۔ اسی بیسویں صدی کی ابتدا میں ہندوستان کے افق پر مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت روشن ستارے کی طرح نمودار ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ عالم اسلامی کے وہ دونوں ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکرافق ہند پر شہاب ثاقب بن کر چمکے ہوں۔ میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ مولانا مرحوم عالم اسلامی کی ان دونوں شخصیتوں کے جامع تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرد مجاہد کی زندگی میں خدا کی فیاضی کے عجیب جلوے نظر آتے ہیں، ظاہری جلال و جمال ایسا تھا کہ مغل دور شہنشاہی بھی شرمندہ ہے۔ دماغ کی تابانی ایسی کہ جس سے فکر و عمل کی جانے کتنی راہیں روشن ہوتی تھیں، دل کی فراخی کا یہ عالم کہ اس میں دشمنوں کے لئے بھی جگہ تھی، مذہب میں نظر ایسی عمیق کہ اس کے آئینہ میں دین و دنیا کی واضح تصویر نظر آتی تھی اور عصرِ حاضر اور فکرِ جدید سے ایسی واقفیت کہ مغرب کے عالم بھی اس کا لوہا مانتے تھے۔
مولانا کی شخصیت کا یہ تنوع ان کی نادر روز گار شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ وہ ایسے گونا گوں ا وصاف اور محاسن کے مالک تھے جو کسی ایک ہی شخصیت میں بہت کم جمع ہوتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مختلف دائروں میں انتہائی بلند مقام حاصل کیا، جہاں پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ علم و فضل ، حقائق دین، حکمت وفلسفہ ، شعر و ادب ،تصنیف و تالیف ، تقریر و خطابت، اخبارنویسی وصحیفہ نگاری ، سیاست و وزارت غرض وہ کون ساحلقہ اور دائرہ نہ تھا جس میں ان کی انفرادیت و یکتائی ثابت ومسلم نہ تھی۔لیکن ان سب کے باوجود اگر غور کیجئے تو ان کی شخصیت کا اصل مایہء خمیر صرف دین و مذہب ہی تھا اور وہی ان کے مختلف مشاغل اور عمل و کردار کے مختلف دائروں میں نمایاں ہوتا تھا، اسی چیز نے ان کی شخصیت میں کمال بلندی عطا کی۔آج ہم جب مذہب کا ذکر کرتے ہیں تو بعض ذہن اسے تفرقہ اور تفریق کی اصل قراردیتے ہیں۔ حالانکہ مولاناکا حقیقی مذہبی کردار ہمیں اس بات کی طرف نشان دہی کر تا ہے کہ مذہب کی روح آپس میں مہرو محبت کی روح ہے، خدمت کی روح ہے، وحدت کی روح ہے۔ وہ مذہب جھوٹا ہے جو تفریق و نفرت کا اظہار کرے ان کے نزدیک مذہب و سیاست دونو ں ہی کا ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ انسان اپنی زندگی کو شرافت ، صالحیت اور انسانیت کے پیکر میں ڈھالے اور اس کے لئے اپنی جسمانی ، ذہنی اور روحانی قوتوں کو فروغ دے اسی لئے ان کی زندگی میں دین اور دنیا کی تفریق نہ تھی بلکہ دونوں ہی میں حق پسندی اور شرافت کے اصولوں کی کارفرمائی تھی، جو دین کی حقیقی روح اور مذہب و اخلاق کا مقصد و منشا ہے۔ مولانا نے مشرقی تہذیب اور مشرقی علوم و فنون کے ماحول میں ابتدائی تعلیم وتربیت پائی، اور دین و مذہب کو اپنی توجہ کا خاص مرکز بنایا اور اس طرح مذہب کی بہترین قدروں کو اپنی ذات میں جذب کیا اور ساتھ ہی مغربی علوم و تہذیب کی اچھی قدروں کو بھی اپنایا اس طرح ان کی ذات مشرق ومغرب کی ایک حسین سنگم بن گئی، ان میں ایک طرف مشرق کی سکون پسندی اور گہرائی ، رواداری اور وضع داری، انسانیت اور روحانی بصیرت تھی تو دوسری طرف مغرب کی روشن خیالی، ذہنی جرأت اور حرکت و عمل کی کارفرمائی تھی۔ وہ ایک زبردست عالم دین تھے لیکن مولویانہ تنگ نظری کا ان میں کہیں پتہ نہ تھا اسی طرح عصر جدید کے تقاضوں سے واقف ہونے کے باوجود تہذیب کی فرزندی سے آزاد تھے۔ اس بات کی شہادت کے لئے یہاں پر مناسب ہے کہ مولانا کی تحریر کا ایک چھوٹا سا اقتباس ’’الہلال‘‘ سے میں پیش کردوں ۔ مولانا فرماتے ہیں :
’’ہمارے تعلیم یافتہ دوستوں کا کچھ عجیب حال ہے، ان کے پاؤں کو دیکھئے ، تو یورپ کی نافہمانہ و کو رانہ تقلید و عبودیتِ فکر کی زنجیریں لپٹی نظر آتی ہیں، مگر چہرے کی طرف نظراٹھائیے تو زبان کو ادعاء و اجتہاد سے فرصت نہیں اس سے بڑھ کر دنیا کے جمع اضدادکا اور کون سا تماشا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آئے اور عین اس وقت جب کہ اس کے پاؤں میں تقلید و استعباد کی زنجیریں پازیب کی طرح صدا دے رہی ہوں، اجتہاد فکر اور حریت رائے پر بے تکان لکچردینا شروع کر دے۔‘‘
انسانی سو سائٹی میں مذہب کا جو منصب اور مقام ہے مولانا کی نگاہ حقیقت بیں نے اس کو پالیا تھا اور وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انسانی زندگی کی ساری عظمتیں دین و مذہب کے بغیر ادھوری اور نا مکمل ہیں، ’’الہلال‘‘ کے زریں صفحات اس حقیقت کی روشن یادگار ہیں چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
’’انسان ذہن وجسم کی کتنی ہی عظمتیں حاصل کرے لیکن روح اور اخلاق کی ادنیٰ سے ادنیٰ پاکیزگی بھی حاصل نہیں کرسکتا، اگر اس کا اعتقاد اور عمل روحانی ہدایت کی روشنی سے محروم ہے ۔ انسان کے لئے یہ سہل ہے کہ تمام دنیا فتح کرے، سکندر نے تمام دنیا کی سلطنتیں تہہ و بالا کر ڈالیں تھیں۔ انسان کے لئے یہ بھی مشکل نہیں کہ ذہن و فکر کی ایسی بلندیوں تک پہنچ جائے جہاں تک دوسرے کے قدم نہ پہنچ سکے ہوں۔ ارسطو ،اقلیدس، سولن اور سنیکا جیسے فاتحین علم کی فتح مندیاں لازوال ہو چکی ہیں اوردنیا منطق، ریاضی ، قانون اور فلسفۂ اخلاق میں آج تک ان کی پس رو، انسان کی اولوالعزمی ان بلندیوں پر بھی نہیں رکتی اورکچھ مشکل نہیں اگر وہ آگ کے شعلوں میں کود پڑے، سمندر کی موجوں کی ہنسی اڑائے ، پہاڑوں کی صفیں چیر ڈالے مگر ہاں یہ مشکل ہے اور بہت ہی مشکل کہ وہ اخلاق اور روحانی پاکیزگی کی راہ میں اپنی کسی ایک خواہش نفس کا بھی مقابلہ کر سکے ۔ 
سکندر تمام دنیا کی تسخیر کی محنت سے نہیں تھکا ، لیکن بابل کی ایک عورت جب اس کے سامنے آئی تو اپنی خواہش نفس کے اضطراب سے بے بس ہوکر رہ گیا۔ سنیکا نے تمام نوع انسانی کو اخلاق اور اخلاقی سعادت کی دعوت دی، لیکن خود اپنے آپ کو ایک دوسرے انسان کی منکوحہ عورت سے باز نہ رکھ سکا ، ارسطو کے دامن علم کے دھبّے بھی دنیا گن چکی ہے ۔ 
فی الحقیقت انسانی زندگی کی یہی اخلاقی اور عملی نامرادی ہے، جو الہامی ہدایت کی کسی بالاتر قوت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ، انسان اپنے ذہن و جسم کی قوتوں سے سب کچھ کر سکتا ہے لیکن تکلف اوربناوٹ سے بھی اپنے آپ کو نیک نہیں بنا سکتا، اگر انسانی زندگی کی سعادت کے لئے اس عملی صداقت کی کچھ بھی ضرورت ہے جسے نیکی کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو ناگزیر ہے کہ عام انسانی سطح سے کوئی بلند تر ذریعہ رشد و ہدایت کا ہو۔ مذہب او رالہام اسی ذریعۂ ہدایت کا نام ہے۔‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مولانا ابوالکلام کی فکر کااصل محور ہمیشہ سے دین و مذہب رہا ہے اور ان کی ساری تگ و دو اور حرکت و عمل اسی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو گذشتہ نصف صدی سے بر عظیم ہند کے مسلمانوں کی بیداری میں مولانا کا سب سے زیادہ حصہ رہا ہے بلکہ سچ تویہ ہے کہ کوئی دوسرا مسلمان رہنما ان کا شریک و سہیم نہیں ، انہوں نے اس وقت یہاں دعوتِ حق کا نعرہ بلند کیا، جب کہ مسلمانو ں کا ایک طبقہ انگریزوں کی اطاعت کو واجب قرار دیتا تھا او رغلامی پر قناعت کا وعظ کہتا تھا اور ایک دوسرا طبقہ اسلام کی ہمہ گیریت سے ناواقف صرف ظاہری عبادات و رسوم ہی کو سب کچھ قرار دئیے ہوا تھا ۔ خدمت دین کا سب سے بڑا کام درس نظامی کی کتابوں کو پڑھا دینا یا غیروں سے اسلام کے نام پر مناظرے کر لینا تھا ، ایسے حالات میں مولانا نے حق و صداقت کا چراغ روشن کیا ، اور اقامت دین کی دعوت شروع کی، مولانا کے اس اہم کارنامہ کو دیکھ کر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے عالم دین تک نے فرمایا کہ:
’’ہم سب اصل کام بھولے ہوئے تھے،’الہلال ‘نے یاد دلادیا‘‘۔
اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالی نے مولانا کو زبان و قلم کی بے مثال صلاحیتیں عطا کی تھیں ، مولانا 1912ء سے ہندوستان میں اسلامی قیادت کے مسند نشین رہے اور مسلمانوں نے بجا طور پر انہیں امام الہند کا خطاب دیا تھا ، دینی فکر و بصیرت ، سیاسی سوجھ بوجھ اور دعوت و عزیمت کے اعتبار سے فی الواقع وہ اسلامیان ہند کے عظیم رہنما تھے ، مولانا کے نزدیک مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے دو پروگرام تھے، افسو س ہے کہ ہم نے ان کی دعوت کو نہ ٹھیک سے سمجھااور نہ اس پر عمل پیر ا ہوئے ، اول مسلمانوں نے کے لئے ان کا پیغام یہ تھا کہ ان کی دینی و دنیاوی فلاح و سعادت کاضامن صرف اسلام ہے، انہیں زندگی کا ہر مسئلہ اسلام ہی کی روشنی میں طے کرنا چاہئے،اسلام ان کی پوری زندگی کا دین ہے اور اس معاملہ میں انہیں کسی دوسرے نظریۂ حیات کی طرف نہیں دیکھنا چاہیئے، اس غرض کے لئے مولانانے اپنی خاص جماعت ’’حزب اللہ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور ملک کے اہل علم نوجوانوں کو دعوت دی او ران سے بیعت لی ۔مولانا اپنی اس بیعت امامت میں جن پانچ باتوں کی بیعت لیتے تھے، وہ یہ تھے:
’’الحمدللہ وحدہ، جن عزیزوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے انہوں نے میرے ہاتھ پر پانچ باتوں کا عہد کیا ہے :
اول : امر بالمعروف،نہی عن المنکر اور توصیۂ صبر کا یعنی ہمیشہ نیکی کا حکم دیں گے ، برائی کوروکیں گے، صبر کی وصیت کریں گے۔
ثانیاً: الحب فی اللہ و البغض فی اللہ کا ، یعنی اس دنیامیں ان کی دوستی ہوگی تو اللہ کے لئے اور دشمنی ہوگی تو اللہ کے لئے۔
ثالثاً: لایخافون فی اللہ لومتہ لائم کا ، یعنی سچائی کے راستے میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کریں گے اور خدا کے سوا وہ اور کسی سے نہیں ڈریں گے۔ 
رابعاً: اس بات کا کہ وہ اللہ اور اس کی شریعت کو دنیا کے سارے رشتوں، ساری نعمتوں اور ساری لذتوں سے زیادہ محبوب رکھیں گے۔
خامساً: اطاعت فی المعروف کا ، یعنی شریعت کے ہر حکم کی اطاعت بجالائیں گے۔ جو ان تک پہنچا یاجائے ۔ 
میں ان کو یاد دلاناچاہتا ہوں کہ یہ ان کا قول تھا او راب چاہئے کہ اپنے عمل سے بھی اس کی پوری پوری تصدیق کریں اور کامل انقطاع اور راست بازی کے ساتھ اپنے تئیں اللہ کے سپرد کردیں۔‘‘
مسلمانان ہند کی ہدایت وہنمائی کے سلسلہ میں دوسرا حصہ مولانا کے نزدیک ہندوستان کی سیاسی آزادی تھی، انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ مسلمان غلام رہ کر زندہ رہنے کے لئے نہیں پیدا ہوا ہے ،غلامی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں اور انگریزوں سے نجات حاصل کرنا ان کی محض قومی وطنی ضرورت نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے اور آزادی کا وہ صور قیامت جس سے برسوں خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہندوستانی قوم جاگ اٹھی ، مولانا نے اس وقت پھونکا، جب مکمل آزادی کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا ۔آزاد�ئ وطن کے لئے کانگریس میں شرکت کامطلب یہ تھا کہ انگریزوں سے ہندستان کی آزادی کا مطالبہ ہندوستان کی تمام قومیں متحدہ طور ہی پر کر سکتی ہیں ۔ ایک طرف مولانا جہاں فکر اسلامی کے حقیقی نمائندہ تھے تو دوسری طرف ہندوستان کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے رہنما اور مجاہد بھی تھے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی شہادت گاندھی جی کی ہے ،آپ فرماتے ہیں :
’’ مجھے 1920ء سے قومی کام میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ وابستہ رہنے کا فخر حاصل رہا ہے ، اسلام کے بارے میں اُن سے زیادہ معلو مات کسی اور کو حاصل نہیں ہیں، عربی زبان کے وہ بہت بڑے عالم ہیں، ان کی دیش بھگتی اسی طرح پختہ اور راسخ ہے، جس طرح ان کا اسلام میں عقیدہ، وہ انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاسیات کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرے۔‘‘
مہاتما گاندھی کے اس بیان سے واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی شخصیت کا صحیح عرفان ہوتا ہے۔ مولانااگر ایک طرف سچے مسلمان تھے تو دوسری طرف وہ سچے ہندوستانی بھی ۔آج بہت سے کم نظروں کو مولانا کی اس جامعیت میں تضاد نظر آتا ہے ۔ وہ اپنی بے بصیرتی اور کم نظری کی وجہ سے مولانا کے بارے میں اپنے خیال کے مطابق یا تو بہت زیادہ خوش فہم ہیں یا انتہائی خفا! ایک طبقہ وہ ہے جس نے مولانا کی سیاسی زندگی ، آزادی کی جدو جہد اور اس سلسلہ میں اپنے ہم وطنوں کے شانہ سے شانہ ملا کر مجاہدانہ حرکت و عمل سے شاکی رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مولانا نے دین کی اصل حقیقت کو پس پشت ڈال دیا تھا اور وطن پرستانہ زندگی میں کھوکر رہ گئے تھے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو صرف مولانا کے اسی سیاسی پہلو کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ متحدہ قومیت کی تعمیر ہی ان کی زندگی کا اصل مقصد و منشا تھا ، یہ دونوں ہی باتیں مولانا کے بارے میں دو انتہائی ہیں اور اس طرح سوچنا مولانا کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے ،حالانکہ مولانا مرحوم کا فکر و عمل اور ان کا کردار ان دونوں انتہا داں سے علیحدہ تھا وہ دین وسیاست کے جامع تھے، اور انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا ہندوستانی بن سکتا ہے اور رہ سکتا ہے ۔ مناسب ہے کہ اس موقع پر مولانا کے خطبۂ صدارت کا ایک ٹکڑا پیش نظر رہے، جو انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کے موقع پر رام گڑھ 1941ء میں فرمائے تھے:
’’ میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کر تا ہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کے تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں ۔ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور برداشت نہیں کر سکتاکہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتاہے، میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر حامل فیکٹرہوں ، میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔‘‘
مولانا آزاد کی تحریک دعوت و عزیمت کا جو غلغلہ 1912ء میں الہلال سے شروع ہوا تھا ،و ہ آخر تک جاری رہا اور مولانا کے مسلک و موقف میں کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ برابر ایک ہی بات کہتے رہے کہ اچھے مسلمان بنواور اچھے ہندوستانی رہو، دنیا کی ساری عظمتیں تمہارے قدموں پر ہوں گی ۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے نتائج میں47ء کا الم ناک حادثہ بھی ہندوستان کی بد قسمت سرزمین کو دیکھنا پڑا۔ ایسے نازک وقت میں بھی مولانا نے مسلمانوں کو جس حقیقت کی طرف نشان دہی کی وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے سچ تو یہ ہے کہ شاہجہانی مسجد کی یہ تقریر مولانا کے فکر وعمل کی ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جس پر چل کر آج بھی مسلمان کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ اس تقریرکے کچھ حصّے پیش خدمت ہیں، جو خطابت اور ادب و انشاء کی بھی شاہکار ہے اور ایک مرد مومن کے دل کی آواز بھی:
’’یہ دیکھو مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے ؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔
عزیزو! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے مسلمان اور بزدل یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے،سچے مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلاسکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے، چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہوجانے سے ڈرو نہیں، انہوں نے تمہیں جانے ہی کے لئے اکٹھا کیا تھا، آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ عیب کی بات نہیں، یہ دیکھو کہ تمہارے دل تو ان کے ساتھ رخصت نہیں ہوگئے۔ اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو ان کو اپنے اس خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے تیرہ سو سال قبل عرب کے ایک امی کی معرفت فرمایا تھا: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوُ ارَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْ افَلاَ خَوْفْٗ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَخْزَنُوْنَ (جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے تو پھر ان کے لئے نہ تو کسی کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم)
ہوائیں آتی ہیں اور گذر جاتی ہیں یہ صر صر سہی لیکن ا س کی عمر کچھ زیادہ نہیں، ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلا کا یہ موسم گذرنے والا ہے، یوں بدل جاؤ جیسے پہلے تم کبھی اس حالت میں نہ تھے۔۔۔
آج زلزلوں سے ڈرتے ہو کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے، آج اندھیرے سے کانپتے ہو کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود خود ایک اجالا تھا، یہ بادلوں کے پانی کا سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائچے چڑھالئے ہیں وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا ،بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرا دیے، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے، یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے ہیں جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔
عزیزو! میرے پاس تمہارے لئے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے چودہ سو برس پہلے کا پرانا نسخہ ہے، وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا اور وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان: وَلاَ تَھِنُوْ اوَ لاَ تَحْزَ نُوْا وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتْم مُؤْ مِنِیْنَ)‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام کی حیثیت ایک تاریخ ساز شخصیت کی تھی، انہوں نے ’الہلال‘، و ’البلاغ‘ کے ذریعہ مسلمانان ہند کو دعوت و عزیمت کی راہ دکھلائی۔ مولانا، آزادی و حق پرستی کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے، الہلال اس دعوت کا وسیلہ تھا، اس کے ذریعہ مولانا نے اس قوم کو جگانے کا فرض انجام دیا جسے استعماری تسلط نے محو خواب کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتی تھی کہ وہ سلطنت برطانیہ جس کی حکومت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا، اس کا آفتابِ اقبال بھی کبھی غروب نہ ہوگا، لیکن ’الہلال‘ کی دعوت اور اس کے پیغام نے مردہ دلوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ بوڑھے، جوان، جدیدتعلیم یافتہ قدیم علماء غرض ملت کے ہر ہی طبقہ میں بیداری پیدا ہوئی اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بعد کی ساری بیداریاں مولانا ہی کے اس قلم کا نتیجہ تھیں، جس کے قلم سے موتی بھی برستے تھے اور بجلیاں بھی گرتی تھیں، جو باطل کو جلاتی اور سچ کو روشن کرتی تھیں۔ الہلال کے بعد حقیقت یہ ہے کہ وہ زبان بند ہوگئی، وہ قلم ٹوٹ گیا لیکن اس کی روشن مثال باقی ہے ،وہ مقصد باقی ہے، وہ دعوت باقی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مثال اور دعوت سے گرمی بھی لیں اور روشنی بھی، اپنی زندگی کی تاریک راہوں کو اسی سے روشن و تابناک بنائیں۔ آج بھی ہم جب الہلال کے فائل پڑھتے ہیں تو اپنے اندرو ہی گرمی بھی پاتے ہیں اور وہی روشنی بھی، جو الہلال کے صفحات کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ الہلال کے بعد جب مولانا نے ’البلاغ‘ جاری کیا تو اس کا نصب العین بھی وہی دعوت و عزیمت اور اقامت دین تھا جو’ الہلال‘ کا! لیکن طریق ابلاغ کچھ مختلف تھا، تیور وہی تھے، انداز بدلا ہوا۔ ’الہلال‘ حرکت و عمل، جوش و ولولہ کا پیام رساں تھا اور ’البلاغ‘ فکر و بصیرت اور روحانی عزم و ثبات کا۔ ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ میں مولانا ابوالکلام کی دینی و علمی مقالات کا جو فاضلانہ لب و لہجہ، سیاسی مضامین کا مجاہدانہ و قائدانہ انداز، مذہبی افکار کا حکیمانہ اسلوب اور اس کے ساتھ اس کی خطیبانہ بلند آہنگی، عسکرانہ رجز خوانی، مرد مومن کا اذعان و یقین ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کی مثال پیش کرنے سے اردو صفحات کی تاریخ عاجز ہے، جب ہم انھیں پڑھتے ہیں تو اس سے ہم کو ایک نیا ولولۂ حیات ایک نیا جوش زندگی حاصل ہوتا ہے اور یہی مولانا کے قلم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے فکر رسا اور زور قلم کے نتیجہ میںآسمان علم و ادب پر یوں تو چند روشن ستارے نمایاں ہیں اور سب کی تابش نظر کو خیرہ کرنے والی ہے لیکن مستقل تصنیف کی حیثیت سے قرآن مجید کی تفسیرترجمان القرآن ،مولانا کی تمام تحریروں میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔اور آسمان علم و ادب پرستاروں کے جھرمٹ میں ماہ کامل کی طرح روشن اور تابناک ہے۔اس میں مولانا کے قلم کی توانائی،قوت استدلال،اجتہاد فکر،وسعت نظر،قرآنی فکر نمایاں نظر آتی ہے اوریہ وہ خصوصیات ہیں جن میں مولانامنفردحیثیت کے مالک ہیں۔بات یہ ہے کہ انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا ایک ایسا دور ہے جس میں عالم اسلام نے ذہنی و فکری طور پر ایک نئی کروٹ لی ہے،اس کے اسباب سیاسی بھی ہیں اور علمی بھی،دنیا کے عام تمدنی حالات بھی ہیں اور علم جدیدہ کا ارتقا بھی۔یہ اسی دورکا نتیجہ تھا کے عالم اسلام میں جمال الدین افغانی،مفتی محمدعبدہ اور علامہ رشید رضا پیدا ہوئے اور اسی دور میں ہندوستان میں سرسید،شبلی اور ابوالکلام کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی ۔سرسید کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کی بیداری میں نقش اول کی حیثیت رکھتی ہے لیکن سرسید کے ذہن میں مشرق و مغرب کی وہ جامعیت نہ تھی ،جو شبلی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مسائل میں سرسید سے لغزشیں بھی ہوئیں،مولانا آزاد جہاں سرسید کی فکر روشن کے مداح تھے وہیں ان کے بعض خیالات کے ناقد بھی تھے، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کی نئی نسل کے ذہن پر سرسید سے زیادہ شبلی کا اثر تھا،فکر شبلی سے دو متوازی لہریں اٹھیں ایک ابو الکلام کا ’’الہلال‘‘ تھا دوسرے شاعر مشرق اقبالؔ کا پیام مشرق!یعنی دو عظیم شخصیتوں نے اپنے دائرہ عمل میں ملت اسلامیہ کے جدید اذہان پرغیر معمولی اثر ڈالا،اقبال و ابو الکلام کے فکری لہروں سے ایک تیسری لہر پیدا ہوئی،جس نے عالم اسلام میں تجدید و انقلاب کی نئی داغ بیل ڈالی، میری مراد سید ابو ا لاعلیٰ مودودی سے ہے۔ مولانا مودودی کی سحر آفریں شخصیت آج سارے عالم اسلام میں تحریک اسلامی اور انقلاب اسلامی کی علامت(symbol)بن گئی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص سیدرشید رضا کی تفسیر’ المنار‘ ، مولانا ابو الکلام کا ترجمان القرآن اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ایک ساتھ مطالعہ کرے تو اسے ایک ہم آہنگ ذہنی ارتقا اور فہم قرآن کا ایک فکری تسلسل نظر آئے گا اور ایسا صاف محسوس ہوگا کہ ایک ہی سانچہ میں ڈھلے ہوئے مختلف ذہن، مختلف زبان اور انداز بیان میں اظہار مطالب کر رہے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر القرآن کا جب ذکر آگیا ہے تو اس سلسلہ کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کردینا بھی بہتر ہے، ترجمان القرآن کی جب پہلی جلد منظر عام پر آئی تو اس میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر مولانا کے فکر و نظر کی ایک ایسی شاہ کار تھی جس کی مثال اردو تو کیا عربی تفاسیر میں بھی نہیں ملے گی، اس کے پڑھنے سے کچھ ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ مولانا نجات اخروی کے لئے صرف ایمان با اللہ اور عمل صالح کو کافی سمجھتے ہیں ، ایمان بالرسالت،نجات کے لئے ان کے نزدیک ضروری نہیں مولانا کی تفسیر کے اس رخ سے اپنوں کو شکایت ہوئی، غیروں نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر عوام میں مولانا کو بے دین و بے عقیدہ قرار دیا۔حالانکہ یہ بات ہی سرے سے غلط تھی۔ سورہ فاتحہ کی تفسیر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مولانا ایمان با لرسل کے قائل نہیں ،ایک مسلمان کے بنیادی عقیدہ سے نا واقفیت کی دلیل ہے، مولانا نے بہت ہی صاف اور صریح لفظوں میں اس غلط فہمی کی تردید کی ہے۔ اور اس سلسلہ میں مولانا مرحوم کے وہ خطوط’’ قول فیصل ‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں ہماری ریاست بہار کے مشہور قومی و ملی رہنما جناب قاضی احمد حسین مرحوم نے ’’میرا عقیدہ‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کے قرآنی فکر و زہن کا سب سے بڑا ثبوت خود مولانا کا ادب و انشا بھی ہے،مولانا کا ادبی اسلوب وہی ہے،جسے ہم قرآن کا ادبی اسلوب کہہ سکتے ہیں،یعنی حکیمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطیبانہ اور معجزانہ بھی !قرآن کا ادبی اسلوب یہ ہے کہ ایک طرف وہ فکر و نظر اور عقل و دانش کو اپیل کرتا ہے تو دوسری طرف اس میں جذبہ کا ابھار اور جوش کا اظہار ہوتا ہے مولانا کا یہ ادبی اسلوب اور انداز بیان تقریبا ان کی تمام ہی تحریروں میں نمایاں ہے بلکہ ان کے ادبی اسلوب کی اصل خوبی بھی یہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معجز نمااسلوب کے موجد اور خاتم دونوں ہی ہیں۔
فکر ابو الکلام کے سلسلہ میں دور متو سطین کے علماء علامہ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کا ذکر نہ کرنا ،مولانا کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، سچ تو یہ ہے کہ مولانا آزاد،علامہ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ سے کافی متاثر تھے۔ مولانا کی قرآنی بصیرت، دینی دعوت اور ایمانی قوت میں ابن تیمیہ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کے فکر کی پرچھائیں نظر آتی ہے۔مولانا آزاد کا زور بیان،حسن انشا اور قدرت کلام کا کمال یہ ہے کہ ہر فکر خواہ وہ کہیں سے لی گئی ہو،اُن کی اپنی فکر بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت ایک عہد آفریں شخصیت تھی اور جب ہم فکر ابوالکلام کا جائزہ الہلال و البلاغ کے فائل ، تذکرہ کے اوراق اور ترجمان القرآن کے صفحات میں لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ؂ 
ز فرق تا با قدم ہر کجا کہ می نگرم

کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است

الکلم طیب

آج سے آئینہ مولانا طیب عثمانی ندوی کی کتاب  شخصیات سے ماخوذ ایک کالم پیش کررہا ہے جس میں ہماری ملت کی ان شخصیات کا ذکر ہےجن سے ہماری نئی نسل کو واقف کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جن کی نگاہوں کے تیر آج بھی دلنشیں اور اس امت کے نوجوانوں کے لئے نشان راہ ہیں۔

گیارہویں شریف

گیارہویں شریف

(فاتحہ یازدہم)

امیمہ قادری

 بغداد سے جیلان جاتے ہوئے اس  قافلہ کے قصہ سے شاید ہی کوئی شخص نا واقف ہو جس میں ہر عمر کے لوگوں کے ساتھ ایک آٹھ سال کا بچہ بھی تها جو حصول علم  کے لئے جیلان جارہا تھا. . جسکی ماں نے چالیس دینار اس کی شیروانی کی اندرونی جیب میں سی دیئے تهے .رخصت کے وقت ماں نے کبھی  جهوٹ  نہ بولنے کی نصیحت کی تهی اور کہا تھا جهوٹ بولنے والے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے. راستہ میں ڈاکووں کے ایک گروہ نے حملہ کر دیا قافلہ والوں کا مال و اسباب لوٹا جا رہا  تھا اسی دوران ڈاکووں کے سردار کی نظر بچے پر پڑی. اس نے پوچھا "تمہارے پاس کیا ہے". بچے نے جواب دیا "چالیس دینار". مگر تلاشی میں کچھ نہ ملا، پوچهنے پر بچے نے جواب دیا، "وہ دینار میری ماں نے اندرونی  جیب میں سی دیئے ہیں. جیب پهاڑنے پر چالیس دینار برآمد ہو گئے سردار  حیران ہوگیا اور سوال کیا "جب والدہ نے اتنی حفاظت سے سی دیا تها تو تم نے کیوں بتا دیا". بچے نے جواب دیا ماں کی نصیحت تهی ،"جهوٹ کبهی نہ بولنا" سردار کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس نے قافلے والوں کا سارا سامان واپس کر دیا اور تائب ہوگیا اور اس کا پورا گروہ بهی. جس بچے کی صداقت نے ڈاکووں کے گروہ کو اللہ والا بنا دیا وہ کوئی اور نہیں حضرت غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تهے، جنکا نام عبدالقادر اور کنیت ابو محمد تهی. آپ کا سن ولادت 470ه  اور وہ خطہ جہاں آپ پیدا ہوئے بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان ہے. نور نبوت سے معمور خاندان میں پیدا ہونے والی یہ شخصیت نجیب الطرفین سید ہے، والد محترم کا نام ابو صالح تها اور آپ آل حسن میں  تهے اور والدہ محترمہ کا نام ام الخیر فاطمہ تها جو حسینی تھیں. آپ نہایت ذهین اور حافظہ کے تیز تهے. آپ کی ولایت کے جوہر بچپن سے ظاہر ہونے لگے تھے. آپ کی تاریخ وصال 11  ربیع الثانی ہے.آپ 561 ه میں 91 برس کی عمر میں بغداد شریف میں واصل بحق ہوئے. آپ کا مزار مبارک مرجع خلایق ہے. 11ربیع الثانی کو بر صغیر کے مسلمان اسی مناسبت سے گیارہویں شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں اور چہار سو  قل و فاتحہ اور لنگر کا اہتمام کرتے ہیں.  
 بدہ دست یقین اے دل بدست شاہ جیلانی
 کہ دست او بود اندر حقیقت دست یزدانی
 سگ دربار میراں شو چوں خواہی قرب ربانی
 کہ بر شیراں شرف دارد سگ دربار جیلانی 

المجیب (اردو زبان و ادب میں خانقاہ مجیبیہ کی خدمات نمبر)



 دینی اور علمی مجلہ المجیب اپنی سہ ماہی اشاعت مکمل کرچکا ہے۔اس موقع پر ادارہ نے ایک ضخیم نمبر شائع کیا ہے جس میں رسالہ المجیب کے تابناک سفر پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انتہائی جامع اور مفید مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔اس نمبر میں تاثرات کا ایک کالم بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ یہاں پیش ہے خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ،سملہ ضلع اورنگ آباد کے سجادہ نشیں شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی سملوی کے تاثرات:(ادارہ)
 
دینی ، علمی و ادبی مجلہ ’’المجیب‘‘ اپنی سہ ماہی اشاعت کی ایک دہائی مکمل کررہا ہے ۔اردو رسائل کے لئے ایک مشکل دور میں تسلسل سے کسی ایسے مجلے کا شائع ہونا جس میں دنیا کی رنگارنگی سے درکنار اخروی نجات اور سنجیدہ علمی و دینی مضامین پر زیادہ زور ہویقیناً عزم محکم اور سعی پیہم کی زندہ مثال ہے۔ حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری مدظلہ العالی،زیب سجادہ مجیبی ،خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی زیر نگرانی اس علمی و ادبی مجلہ کی یہ باوقار اشاعت ان کے لئے جو اس دور پر فتن میں سنجیدہ علمی ،دینی ،معلوماتی اور ادبی تحریروں کے پڑھنے کے خواہاں ہیں ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ’’المجیب ‘ ‘ کو اسی آب و تاب سے شائع ہوتا دیکھ رہا ہوں۔والد محترم حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ ،زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ ،ضلع اورنگ آبادکو اس رسالہ سے ذہنی، قلبی و روحانی لگاؤ تھا۔ان کے ذاتی کتب خانے میں ’’المعارف ‘‘کے شمارے بھی موجود تھے۔وہ بڑی بے صبری سے’’ المجیب‘‘ کے ہر شمارے کا انتظار کرتے اور جیسے ہی یہ رسالہ ان کے ہاتھوں میں آتا ایک ہی نشست میں اس کو مکمل پڑھنے کی سعی کرتے۔خانقاہ مجیبیہ کے بزرگوں اور اہل قلم حضرات سے ان کا قلبی تعلق ’’المجیب ‘‘سے ان کے عشق کا ایک بنیادی عنصر تھا۔
۷۰ کی دہائی میں اس رسالے کا عروج قابل دید تھا۔خانقاہ مجیبیہ اور ملک کے نامور علما و مشائخ کی تحریریں اس مجلے کی زینت بن رہی تھیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب ۱۹۸۰ میں ماہنامہ’’ المجیب ‘‘کی اشاعت کو وقتی طور پر روکنا پڑا۔ظاہر ہے یہ وقفہ نہ صرف خانقاہ کے اکابرین کے لئے بلکہ ادب کہ ان تشنہ لبوں کے لئے بھی انتہائی سخت تھا جواس رسالہ سے اپنی دینی ،فکری، ادبی و ذہنی پیاس بجھاتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے آج سے دس سال قبل اس رسالہ کا ایک بار پھر اسی شان سے اجرا ہوا اور الحمد اللہ آج ’’المجیب ‘‘ اپنی از سر نو اشاعت کے خوبصورت دس سال مکمل کررہا ہے۔اپنی اشاعت کے دوسرے زرّیں دور میں المجیب کو سہ ماہی کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وقت کی رفتار اتنی تیزہے کہ اس رسالہ کے ماہانہ سے سہ ماہی ہونے کا احساس بہت زیادہ نہیں رہا۔اس مجلے میں شامل ہونے والے علمی و تحقیقی مضامین اتنے ٹھوس اور معیاری ہیں کہ دوسرے رسائل کی طرح ایک ماہ میں اس کی مشمولات کو ہضم کر پانا آسان نہیں۔انتہائی جانفشانی سے تحریر کردہ یہ مضامین دیرپا اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ظاہر ہے اتنے محدود وسائل میں اس معیار کے رسالے کی ماہانہ اشاعت ایک مشکل امر ہے خاص کر ایسی صورت میں جب سنجیدہ اور ایک مخصوص مزاج کی تحریروں کے لکھنے اور پڑھنے والے کم ہوں۔المجیب کی خوش نصیبی ہے کہ اسے مضامین و مقالات کے لئے دوسروں کا منہ تکنے کی ضرورت نہیں۔ خود اس کے خزینے میں ایسے ایسے گوہر آبدار موجود ہیں جو دنیائے علم و تحقیق کی پیاس بجھانے اور ان کی راہ نمائی و قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔المجیب کی مسلسل کامیاب اشاعت کا راز اسی میں پنہاں ہے۔مالی دشواریاں المجیب کے لئے سد راہ بنیں لیکن اس کے سرپرستوں نے اپنی مخلصانہ کاوشوں اورجہد مسلسل سے اس پر قابو پایا۔آج اردو کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں لیکن خانقاہ مجیبیہ ،پھلواری شریف نے اردو زبان کی جو خاموش خدمت کی ہے وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔دینی ،علمی و ادبی رسالوں میں المعارف سے المجیب تک کا سفر نہ صرف تشنگان علم بلکہ اردو زبان و ادب کی ایسی خاموش خدمت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا نا انصافی اور نا شکری ہوگی۔
آج ہم صرف اس علمی و دینی مجلہ کے دس سال مکمل کرلینے کا جشن نہیں منا رہے بلکہ آج یہ امر بھی قابل تعریف ہے کہ خانقاہ مجیبیہ نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اردو زبان وادب کی جو خدمت کی ہے وہ بے مثال ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اردو شعر و ادب کی ترویج و اشاعت میں خانقاہوں کا عظیم حصّہ رہا ہے۔ ان خانقاہوں نے اردو کو اس کی اس بنیادی تہذیبی شکل میں زندہ رکھا جو فارسی سے قریب ترتھی۔ آج بھی خانقاہ مجیبیہ میں ایسے اہل علم موجود ہیں جو نہ صرف فارسی پر بھرپور دسترس رکھتے ہیں بلکہ اس زبان میں شاعری کرنے پر بھی قادر ہیں۔زیب سجادہ حضرت مولانا سید شاہ محمدآیت اللہ قادری ،مولانا الحاج سیدشاہ ہلال احمد قادری، مولانا شاہ بدر احمد مجیبی،مدیر المجیب ڈاکٹر شاہ فتح اللہ قادری اپنے اسلاف کے نقش قدم پر تشنگان علم اور اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ خانقاہ مجیبیہ میں اردو زبان و ادب کی یہ خدمات صرف ان رسائل تک محدود نہیں بلکہ یہاں تحقیقی ، علمی، دینی و ادبی کاموں کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ فیاض المسلمین امیرالشریعۃ مولانا سید شاہ محمد بدر الدین قادری پھلواروی قدس سرہ کی تالیف مبارکہ’’ احوال مولائے کائنات‘‘مع تحشیہ و تخریج ازسید شاہ آیت اللہ قادری ،اس دور میں شائع ہونے والی ایک ایسی علمی و ادبی کتاب ہے جس میں اس موضوع پر انتہائی عرق ریزی سے کام کیا گیا ہے اور اس کا بھرپور حق ادا کیا گیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے لحاظ سے بھی یہ ایک بلند پایہ تصنیف ہے۔زبان کی سلاست اور تحریر کی روانی قابل دید ہے۔مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری کی تالیف ’’سیرت پیر مجیب قدس سرہ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ ، پھلواری شریف ان نادر و نایاب تحریروں کو شائع کرکے امت مسلمہ اور اردو زبان و ادب کی ایک بیش بہا خدمت انجام دے رہا ہے۔مختصر تاثرات میں ان کا احاطہ ممکن نہیں ۔ خانقاہ مجیبیہ میں اردو زبان و ادب کی خدمات کا یہ ذکر سورج کو چراغ دکھانے کہ مترادف ہے۔ خانقاہ مجیبیہ کی علمی و ادبی خدمات کو کسی سند کی ضرورت نہیں ؂ مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔یہ ان بزرگوں کا فیض خاص ہے کہ ان کے آستانے سے آج بھی یہ خوشبو چمن میں پھیل رہی ہے اور انشاء اللہ تاقیامت پھیلتی رہے گی اور تشنگان علم دین اور شیدایان زبان و بیان اسی طرح فیضیاب ہوتے رہیں گے۔

وسیلۂ نجات

خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ 
آن لائن سلسلہ مطبوعات۔۳

حلیة النبی صلی اللہ علیہ وسلم

خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ 
آن لائن سلسلہ مطبوعات۔۲

شمع ہدایت

خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ 
آن لائن سلسلہ مطبوعات۔۱

دعوت عرس

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم صلی وسلم علے نورسیدنا محمد قاسم الفیوض والبرکات و علی الہ وبارک وسلم
یک زمانہ صحبتے با اولیا 
بہتر از صد سال ذکر بے ریا
حبی فی اللہ         السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی!
الحمد اللہ حسب سابق صاحب التفرید و تجرید شیخنا و مرشدنا و جدنا حضرت الحاج شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہیدفردوسی سملوی قدس سرہ العزیز کا سالانہ عرس مبارک بتاریخ 6 ،7 ، 8رجب 1436 مطابق 26، 27، 28 اپریل 2015 بروزاتوار، سوموار،منگل خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ۔سملہ میں منعقد ہورہا ہے۔زیارت شریف موئے مبارک شفیع المذنبین خاتم النبین حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۷ رجب بعد نماز ظہر ہوگی۔ تمام اخوان و احباب سے ملتجی ہوں کہ عرس کی شرکت اور آستانہ کی حاضری سے مستفیض ہوں۔ صاحب عرس کے ایصال ثواب کی نیت سے تلاوت کلام مجید ،کلمہ طیبہ اور درود شریف کا زیادہ سے زیادہ ورد  تمام احباب اور اخوان کو کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو کار خیر کی توفیق   عطا کرے اور بزرگوں کے فیوض و برکات سے ہمارے قلوب کو روشن اور منور فرمائے۔
ہے خراب بادہ ساقی کمالی کی د عا
                حشر تک یا بوالحسن آباد میخانہ رہے            آمین
خاکپائے فردوسیاں
                                              دعاگو   
شاہ                                      محمد تسنیم عثمانی فردوسی سملوی
 سجادہ  نشیں خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ، ضلع اورنگ آباد (بہار)
Mobile: 09431347304



ہفتہ، 28 مارچ، 2015

کیا وقت تھا کیا لوگ تھے۔۲

کیا وقت تھا کیا لوگ تھے۔2
سملہ کی کہانی میری زبانی
ابن طاہر

عرس کی آمد کا سملہ اور اطراف کے بستی والوں کو شدت سے انتظار رہتا۔ جمادی الثانی کا چاند ہی ان کے لئے رجب کی خوشیوں کا پیغام لے کر آجاتا۔ وہ شدت کے ساتھ اس دن کے انتظار میں لگ جاتے کہ کب انہیں اپنے پیر صاحب سجادہ حضرت حکیم شاہ محمد طااہر عثمانی فردوسی ؒ کے سملہ آنے کا مژدہ ملے جن کا مستقل قیام کول فیلڈ کے شہر جھریا میں  تھا جہاں وہ کسب معاش کے لئے طبابت کا پیشہ کرتے تھے اور ایک حاذق طبیب تھے۔ایک طرف رشد و ہدایت کی ذمہ داری تھی  تو دوسری جانب  رزق حلال کی تلاش۔ آپ نے ہمیشہ اپنے گھریلو اخراجات اور نظام خانقاہی کی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا۔ جو کچھ بھی نذر و فتوحات اللہ کے فضل و کرم سے آتیں وہ خانقاہ کے اخراجات میں صرف ہوتیں اور اپنے ذاتی اخراجات کے لئے اپنی محنت اور اللہ کے فضل وکرم پر بھروسہ ہوتا۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے احساس خودداری کو ٹھیس نہ لگنے دی۔ یہی سبب تھا کہ اگر کسی مرید کا نذرانہ قبول کرلیتے تو وہ اس کو اپنے لئے باعث سعادت خیال کرتا اور ایک اشارے پر خانقاہ اور اپنے پیر کے لئے دل و جان نثار کرنے  کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا۔ اللہ کا فضل ہے یہی خوداری اور صبر و استغنا ان کی اولاد کے بھی حصہ میں آیا اور سب نے اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر محنت و مشقت اور ملازمت کو اپنا شعار بنایا۔خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت  حکیم شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی مدظلہ اس منصب جلالت پر فائز ہونےکے ساتھ ساتھ جمشید پور کے ٹاٹا ہائی اسکول  میں ملازمت کرتے ہیں اور اپنی دونوں ہی ذمہ داریوں کو بخیر و خوبی سر انجام دیتے ہیں۔  بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ ان باتوں کے بیان کا مقصد محض  اتنا تھاکہ وہ لوگ جو خانقاہوں اور پیری مریدی کو ہیچ اور ایک پیشے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کی نظروں سے پردہ اٹھ سکے۔

بہر حال میں عشق سےمنور ان دلوں کی داستان بیان کررہا تھا جو اپنے پیر کی محبت میں ہمہ وقت سرشار رہتے اور انتظار میں رہتے کہ کب  منادی ہو کہ ان کے پیر  رفیع گنج  تشریف لارہے ہیں۔ رفیع گنج سملہ سے ۸ کیلو میٹر کی دوری پر  نزدیک ترین اسٹیشن ۔ہے جو ہوڑہ نئی دہلی مین ریلوے لائن پر گیا جنکشن کے بعد واقع ہے۔اب یہاں کئی ٹرینیں رکنے  لگی  ہیں مگر اس زمانے میں صرف پسنجراورایک دوایکسپریس ٹرینیں رکتی تھیں۔جس ٹرین سے آنا ہوتا اس کی آمد سے قبل اسٹیشن مریدوں سےبھرجاتا۔اسٹیشن ماسٹر ویٹنگ روم جو علاقے کے امرا کے لئے مخصوص تھا اس کی صفائی ستھرائی میں لگ جاتا ۔اسے بھی اس بات کا احساس ہوتا کہ آنے والی ٹرین سے جو شخص آنے والا ہے یقینآ اس کی شخصیت غیر معمولی ہے۔منظر نامہ بدل چکا تھا گیا کے جس اسٹیشن پر آپ کے والد  حضرت شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کو ان کے عمامہ کی وجہ سے ایک نوجوان نے نیچی نظر سے دیکھاتھا اس کے بعد  کی  نسل ان کے بیٹے کے لئے نظریں بچھائے کھڑی تھی۔آپ کےوالد ماجد نے محبت،شرافت، رواداری، حسن سلوک کا جو بیج ۔بویا تھا آپ کی آبیاری سے اس کی فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ سروں پر ٹوپی اور کرتا لنگی و پاجامےمیں ملبوس مریدین ٹرین کے رکتے ہی بوگی کے سامنے یکجا ہو جاتے اور سامان اٹھانے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہم بھائیوں کی حالت یہ ہوتی کہ کوئی کسی کی گود میں ہوتا تو کسی کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں۔ ایسا لگتا جیسے کوئی دولت غیر مترقبہ ہاتھ آگئی ہو اور ہر کوئی اسے لوٹ لینا چاہتا ہو۔ محبت و عقیدت کا وہ منظر اب آنکھوں سے معدو م ہے یہیں آکر اب بے ساختہ منھ سے نکل جاتا ہے کہ ''آہ کیا وقت تھا اور کیا لوگ تھے۔ان کے دل کیسی محبت سے سرشار تھے۔ سادہ زندگی گزارنے والے صبروقناعت کے یہ پیکر جمیل ،یہ محنت کش اور حلال رزق کے متوالے یہ لوگ اپنی کم مائیگی میں بھی کتنا خوش اور کتنے فراخ دل تھے ۔ اور پھر خیال آتا ہے کہ کیسی ہوں گی وہ شخصیات جنہوں نے ان بنجر دلوں کی آبیاری کی  ایسی آبیاری کے ان کے دل سونا اگلنے لگے۔ یہی وہ دل تھے جو ایک دوسروں کو دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ دین ان کے گھروں سے دور تھا۔جہالت ان کے یہاں عام تھی لیکن مسلسل جہد پیہم سے ان بزرگوں نے ان دلوں کو محبت الٰھی سے   سرشار اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے سر بسجود ہونے کی خوشیوں سے ہمکنار کرایا۔ طاعت و بندگی ان کے رگ و پے میں سما گئی۔ دنیا والے ان سادہ لوحوں کو ان پڑھ اور گنوار سمجھتے رہے لیکن ان کے دل عشق رسول اور محبت الٰہی میں ایسے روشن تھے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ''یک در گیر و محکم گیر "" کے مقولے کو انہوں نے اس شدت سے پکڑا تھا کے آج تک کوئی اس کو ہلا نہ پایا۔وہاں لمبی لمبی تقریریں اور اجتماعات نہیں تھے۔وہاں اعمال تھے وہاں عملی زندگی تھی۔وہاں اسوۂ حسنہ تھاسادگی تھی  خدمت تھی اور اخلاص تھا۔ الحمد اللہ خانقاہ میں وہی سادگی،خدمت اور اخلاص کا جذبہ آج بھی باقی ہےاور بزرگوں کا فیض  جاری و ساری ہے۔

(جاری)