امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد
از طیب عثمانی ندوی
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا تعارف اگر ہم چند لفظوں میں کرانا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں۔ع
مثلِ خور شید سحر فکر کی تابانی میں
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق
مولانا ابوالکلام کی ذات اپنی جگہ ایک انجمن تھی۔ علم و فضل کی وہ کون سی بلند ی ہے جس کو مولانا کے ذہنِ رسانے نہ پایا تھا،ان کی جادو بیانی کا کوئی ثانی نہ تھا اور حسن انشا میں وہ یگانہ تھے۔ فکر کی تابانی ، یقین کی روشنی اور عمل کی گرمی نے ان کی شخصیت میں ایک دل آویزی و دل کشی پیدا کردی تھی۔ فضل و کمال کی رنگا رنگی، مطالعہ کی وسعت ، عالمانہ رکھ رکھاؤ، پاکیزہ جمالیاتی ذوق ان سب کا اتنا دل کش اور حسین امتزاج مولانا کے اندر پایا جاتا تھا کہ ہم ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ گویا وہ ایک ایسا ’’کل‘‘ تھے جس کے گرد مختلف’ اجزا‘ گردش میں ہوں،شعر و ادب ، مذہب و اخلاق، حکمت و فلسفہ ، سیاست و صحافت ہر جگہ اور ہر کہیں مولانا کی اپنی انفرادیت ، ان کا ذہنی کمال اور فکری عمق اپنی مثال آپ ہے۔ قدرت نے انہیں وہ ذہنی صلاحیتیں و دیعت کی تھیں کہ جس فن پر بھی انہوں نے توجہ کی اسے بام عروج تک پہنچا یا اور دیکھنے والوں کوایسا محسوس ہوا جیسے وہ شاید اسی کے لئے پیدا کئے گئے ہوں۔ شعر وادب پر گفتگو کی توعرفیؔ و نظیری،ؔ متنبی اور بدیع الزماں ہمدانیؔ کی صف میں نظر آئے، حکمت و فلسفہ کی بات کی توابن رشدؔ اور ابن طفیل کی مسند سنبھالی، تصوف و اخلاق کا مسئلہ سامنے آیا تو رومی ؔ اور غزالیؔ بن کر سامنے آئے ، رشد و ہدایت، دعوت و عزیمت اور مذہبی اصلاح و انقلاب اپنا شعار بنایاتو وقت کے ابن تیمیہ اور ابن قیم ثابت ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا مرحوم جیسی علمی فضیلت ، ذہانت و عبقریت اور اسلامی علوم و فنون پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ، اس وقت کی اسلامی دنیا میں کوئی اور نظر نہیں آتی، انیسویں صدی کے اواخر او ر بیسویں صدی کی ابتدا میں اسلامی دنیا نے دوعظیم مجاہد اور فاضل پیدا کئے ، میری مراد جمال الدین افغانی اور مفتی محمد عبدہ سے ہے۔ اسی بیسویں صدی کی ابتدا میں ہندوستان کے افق پر مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت روشن ستارے کی طرح نمودار ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ عالم اسلامی کے وہ دونوں ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکرافق ہند پر شہاب ثاقب بن کر چمکے ہوں۔ میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ مولانا مرحوم عالم اسلامی کی ان دونوں شخصیتوں کے جامع تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرد مجاہد کی زندگی میں خدا کی فیاضی کے عجیب جلوے نظر آتے ہیں، ظاہری جلال و جمال ایسا تھا کہ مغل دور شہنشاہی بھی شرمندہ ہے۔ دماغ کی تابانی ایسی کہ جس سے فکر و عمل کی جانے کتنی راہیں روشن ہوتی تھیں، دل کی فراخی کا یہ عالم کہ اس میں دشمنوں کے لئے بھی جگہ تھی، مذہب میں نظر ایسی عمیق کہ اس کے آئینہ میں دین و دنیا کی واضح تصویر نظر آتی تھی اور عصرِ حاضر اور فکرِ جدید سے ایسی واقفیت کہ مغرب کے عالم بھی اس کا لوہا مانتے تھے۔
مولانا کی شخصیت کا یہ تنوع ان کی نادر روز گار شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ وہ ایسے گونا گوں ا وصاف اور محاسن کے مالک تھے جو کسی ایک ہی شخصیت میں بہت کم جمع ہوتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مختلف دائروں میں انتہائی بلند مقام حاصل کیا، جہاں پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ علم و فضل ، حقائق دین، حکمت وفلسفہ ، شعر و ادب ،تصنیف و تالیف ، تقریر و خطابت، اخبارنویسی وصحیفہ نگاری ، سیاست و وزارت غرض وہ کون ساحلقہ اور دائرہ نہ تھا جس میں ان کی انفرادیت و یکتائی ثابت ومسلم نہ تھی۔لیکن ان سب کے باوجود اگر غور کیجئے تو ان کی شخصیت کا اصل مایہء خمیر صرف دین و مذہب ہی تھا اور وہی ان کے مختلف مشاغل اور عمل و کردار کے مختلف دائروں میں نمایاں ہوتا تھا، اسی چیز نے ان کی شخصیت میں کمال بلندی عطا کی۔آج ہم جب مذہب کا ذکر کرتے ہیں تو بعض ذہن اسے تفرقہ اور تفریق کی اصل قراردیتے ہیں۔ حالانکہ مولاناکا حقیقی مذہبی کردار ہمیں اس بات کی طرف نشان دہی کر تا ہے کہ مذہب کی روح آپس میں مہرو محبت کی روح ہے، خدمت کی روح ہے، وحدت کی روح ہے۔ وہ مذہب جھوٹا ہے جو تفریق و نفرت کا اظہار کرے ان کے نزدیک مذہب و سیاست دونو ں ہی کا ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ انسان اپنی زندگی کو شرافت ، صالحیت اور انسانیت کے پیکر میں ڈھالے اور اس کے لئے اپنی جسمانی ، ذہنی اور روحانی قوتوں کو فروغ دے اسی لئے ان کی زندگی میں دین اور دنیا کی تفریق نہ تھی بلکہ دونوں ہی میں حق پسندی اور شرافت کے اصولوں کی کارفرمائی تھی، جو دین کی حقیقی روح اور مذہب و اخلاق کا مقصد و منشا ہے۔ مولانا نے مشرقی تہذیب اور مشرقی علوم و فنون کے ماحول میں ابتدائی تعلیم وتربیت پائی، اور دین و مذہب کو اپنی توجہ کا خاص مرکز بنایا اور اس طرح مذہب کی بہترین قدروں کو اپنی ذات میں جذب کیا اور ساتھ ہی مغربی علوم و تہذیب کی اچھی قدروں کو بھی اپنایا اس طرح ان کی ذات مشرق ومغرب کی ایک حسین سنگم بن گئی، ان میں ایک طرف مشرق کی سکون پسندی اور گہرائی ، رواداری اور وضع داری، انسانیت اور روحانی بصیرت تھی تو دوسری طرف مغرب کی روشن خیالی، ذہنی جرأت اور حرکت و عمل کی کارفرمائی تھی۔ وہ ایک زبردست عالم دین تھے لیکن مولویانہ تنگ نظری کا ان میں کہیں پتہ نہ تھا اسی طرح عصر جدید کے تقاضوں سے واقف ہونے کے باوجود تہذیب کی فرزندی سے آزاد تھے۔ اس بات کی شہادت کے لئے یہاں پر مناسب ہے کہ مولانا کی تحریر کا ایک چھوٹا سا اقتباس ’’الہلال‘‘ سے میں پیش کردوں ۔ مولانا فرماتے ہیں :
’’ہمارے تعلیم یافتہ دوستوں کا کچھ عجیب حال ہے، ان کے پاؤں کو دیکھئے ، تو یورپ کی نافہمانہ و کو رانہ تقلید و عبودیتِ فکر کی زنجیریں لپٹی نظر آتی ہیں، مگر چہرے کی طرف نظراٹھائیے تو زبان کو ادعاء و اجتہاد سے فرصت نہیں اس سے بڑھ کر دنیا کے جمع اضدادکا اور کون سا تماشا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص آپ کے سامنے آئے اور عین اس وقت جب کہ اس کے پاؤں میں تقلید و استعباد کی زنجیریں پازیب کی طرح صدا دے رہی ہوں، اجتہاد فکر اور حریت رائے پر بے تکان لکچردینا شروع کر دے۔‘‘
انسانی سو سائٹی میں مذہب کا جو منصب اور مقام ہے مولانا کی نگاہ حقیقت بیں نے اس کو پالیا تھا اور وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انسانی زندگی کی ساری عظمتیں دین و مذہب کے بغیر ادھوری اور نا مکمل ہیں، ’’الہلال‘‘ کے زریں صفحات اس حقیقت کی روشن یادگار ہیں چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
’’انسان ذہن وجسم کی کتنی ہی عظمتیں حاصل کرے لیکن روح اور اخلاق کی ادنیٰ سے ادنیٰ پاکیزگی بھی حاصل نہیں کرسکتا، اگر اس کا اعتقاد اور عمل روحانی ہدایت کی روشنی سے محروم ہے ۔ انسان کے لئے یہ سہل ہے کہ تمام دنیا فتح کرے، سکندر نے تمام دنیا کی سلطنتیں تہہ و بالا کر ڈالیں تھیں۔ انسان کے لئے یہ بھی مشکل نہیں کہ ذہن و فکر کی ایسی بلندیوں تک پہنچ جائے جہاں تک دوسرے کے قدم نہ پہنچ سکے ہوں۔ ارسطو ،اقلیدس، سولن اور سنیکا جیسے فاتحین علم کی فتح مندیاں لازوال ہو چکی ہیں اوردنیا منطق، ریاضی ، قانون اور فلسفۂ اخلاق میں آج تک ان کی پس رو، انسان کی اولوالعزمی ان بلندیوں پر بھی نہیں رکتی اورکچھ مشکل نہیں اگر وہ آگ کے شعلوں میں کود پڑے، سمندر کی موجوں کی ہنسی اڑائے ، پہاڑوں کی صفیں چیر ڈالے مگر ہاں یہ مشکل ہے اور بہت ہی مشکل کہ وہ اخلاق اور روحانی پاکیزگی کی راہ میں اپنی کسی ایک خواہش نفس کا بھی مقابلہ کر سکے ۔
سکندر تمام دنیا کی تسخیر کی محنت سے نہیں تھکا ، لیکن بابل کی ایک عورت جب اس کے سامنے آئی تو اپنی خواہش نفس کے اضطراب سے بے بس ہوکر رہ گیا۔ سنیکا نے تمام نوع انسانی کو اخلاق اور اخلاقی سعادت کی دعوت دی، لیکن خود اپنے آپ کو ایک دوسرے انسان کی منکوحہ عورت سے باز نہ رکھ سکا ، ارسطو کے دامن علم کے دھبّے بھی دنیا گن چکی ہے ۔
فی الحقیقت انسانی زندگی کی یہی اخلاقی اور عملی نامرادی ہے، جو الہامی ہدایت کی کسی بالاتر قوت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ، انسان اپنے ذہن و جسم کی قوتوں سے سب کچھ کر سکتا ہے لیکن تکلف اوربناوٹ سے بھی اپنے آپ کو نیک نہیں بنا سکتا، اگر انسانی زندگی کی سعادت کے لئے اس عملی صداقت کی کچھ بھی ضرورت ہے جسے نیکی کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو ناگزیر ہے کہ عام انسانی سطح سے کوئی بلند تر ذریعہ رشد و ہدایت کا ہو۔ مذہب او رالہام اسی ذریعۂ ہدایت کا نام ہے۔‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مولانا ابوالکلام کی فکر کااصل محور ہمیشہ سے دین و مذہب رہا ہے اور ان کی ساری تگ و دو اور حرکت و عمل اسی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو گذشتہ نصف صدی سے بر عظیم ہند کے مسلمانوں کی بیداری میں مولانا کا سب سے زیادہ حصہ رہا ہے بلکہ سچ تویہ ہے کہ کوئی دوسرا مسلمان رہنما ان کا شریک و سہیم نہیں ، انہوں نے اس وقت یہاں دعوتِ حق کا نعرہ بلند کیا، جب کہ مسلمانو ں کا ایک طبقہ انگریزوں کی اطاعت کو واجب قرار دیتا تھا او رغلامی پر قناعت کا وعظ کہتا تھا اور ایک دوسرا طبقہ اسلام کی ہمہ گیریت سے ناواقف صرف ظاہری عبادات و رسوم ہی کو سب کچھ قرار دئیے ہوا تھا ۔ خدمت دین کا سب سے بڑا کام درس نظامی کی کتابوں کو پڑھا دینا یا غیروں سے اسلام کے نام پر مناظرے کر لینا تھا ، ایسے حالات میں مولانا نے حق و صداقت کا چراغ روشن کیا ، اور اقامت دین کی دعوت شروع کی، مولانا کے اس اہم کارنامہ کو دیکھ کر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے عالم دین تک نے فرمایا کہ:
’’ہم سب اصل کام بھولے ہوئے تھے،’الہلال ‘نے یاد دلادیا‘‘۔
اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالی نے مولانا کو زبان و قلم کی بے مثال صلاحیتیں عطا کی تھیں ، مولانا 1912ء سے ہندوستان میں اسلامی قیادت کے مسند نشین رہے اور مسلمانوں نے بجا طور پر انہیں امام الہند کا خطاب دیا تھا ، دینی فکر و بصیرت ، سیاسی سوجھ بوجھ اور دعوت و عزیمت کے اعتبار سے فی الواقع وہ اسلامیان ہند کے عظیم رہنما تھے ، مولانا کے نزدیک مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے دو پروگرام تھے، افسو س ہے کہ ہم نے ان کی دعوت کو نہ ٹھیک سے سمجھااور نہ اس پر عمل پیر ا ہوئے ، اول مسلمانوں نے کے لئے ان کا پیغام یہ تھا کہ ان کی دینی و دنیاوی فلاح و سعادت کاضامن صرف اسلام ہے، انہیں زندگی کا ہر مسئلہ اسلام ہی کی روشنی میں طے کرنا چاہئے،اسلام ان کی پوری زندگی کا دین ہے اور اس معاملہ میں انہیں کسی دوسرے نظریۂ حیات کی طرف نہیں دیکھنا چاہیئے، اس غرض کے لئے مولانانے اپنی خاص جماعت ’’حزب اللہ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور ملک کے اہل علم نوجوانوں کو دعوت دی او ران سے بیعت لی ۔مولانا اپنی اس بیعت امامت میں جن پانچ باتوں کی بیعت لیتے تھے، وہ یہ تھے:
’’الحمدللہ وحدہ، جن عزیزوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے انہوں نے میرے ہاتھ پر پانچ باتوں کا عہد کیا ہے :
اول : امر بالمعروف،نہی عن المنکر اور توصیۂ صبر کا یعنی ہمیشہ نیکی کا حکم دیں گے ، برائی کوروکیں گے، صبر کی وصیت کریں گے۔
ثانیاً: الحب فی اللہ و البغض فی اللہ کا ، یعنی اس دنیامیں ان کی دوستی ہوگی تو اللہ کے لئے اور دشمنی ہوگی تو اللہ کے لئے۔
ثالثاً: لایخافون فی اللہ لومتہ لائم کا ، یعنی سچائی کے راستے میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کریں گے اور خدا کے سوا وہ اور کسی سے نہیں ڈریں گے۔
رابعاً: اس بات کا کہ وہ اللہ اور اس کی شریعت کو دنیا کے سارے رشتوں، ساری نعمتوں اور ساری لذتوں سے زیادہ محبوب رکھیں گے۔
خامساً: اطاعت فی المعروف کا ، یعنی شریعت کے ہر حکم کی اطاعت بجالائیں گے۔ جو ان تک پہنچا یاجائے ۔
میں ان کو یاد دلاناچاہتا ہوں کہ یہ ان کا قول تھا او راب چاہئے کہ اپنے عمل سے بھی اس کی پوری پوری تصدیق کریں اور کامل انقطاع اور راست بازی کے ساتھ اپنے تئیں اللہ کے سپرد کردیں۔‘‘
مسلمانان ہند کی ہدایت وہنمائی کے سلسلہ میں دوسرا حصہ مولانا کے نزدیک ہندوستان کی سیاسی آزادی تھی، انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ مسلمان غلام رہ کر زندہ رہنے کے لئے نہیں پیدا ہوا ہے ،غلامی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں اور انگریزوں سے نجات حاصل کرنا ان کی محض قومی وطنی ضرورت نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے اور آزادی کا وہ صور قیامت جس سے برسوں خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہندوستانی قوم جاگ اٹھی ، مولانا نے اس وقت پھونکا، جب مکمل آزادی کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا ۔آزاد�ئ وطن کے لئے کانگریس میں شرکت کامطلب یہ تھا کہ انگریزوں سے ہندستان کی آزادی کا مطالبہ ہندوستان کی تمام قومیں متحدہ طور ہی پر کر سکتی ہیں ۔ ایک طرف مولانا جہاں فکر اسلامی کے حقیقی نمائندہ تھے تو دوسری طرف ہندوستان کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے رہنما اور مجاہد بھی تھے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی شہادت گاندھی جی کی ہے ،آپ فرماتے ہیں :
’’ مجھے 1920ء سے قومی کام میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ وابستہ رہنے کا فخر حاصل رہا ہے ، اسلام کے بارے میں اُن سے زیادہ معلو مات کسی اور کو حاصل نہیں ہیں، عربی زبان کے وہ بہت بڑے عالم ہیں، ان کی دیش بھگتی اسی طرح پختہ اور راسخ ہے، جس طرح ان کا اسلام میں عقیدہ، وہ انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاسیات کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرے۔‘‘
مہاتما گاندھی کے اس بیان سے واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی شخصیت کا صحیح عرفان ہوتا ہے۔ مولانااگر ایک طرف سچے مسلمان تھے تو دوسری طرف وہ سچے ہندوستانی بھی ۔آج بہت سے کم نظروں کو مولانا کی اس جامعیت میں تضاد نظر آتا ہے ۔ وہ اپنی بے بصیرتی اور کم نظری کی وجہ سے مولانا کے بارے میں اپنے خیال کے مطابق یا تو بہت زیادہ خوش فہم ہیں یا انتہائی خفا! ایک طبقہ وہ ہے جس نے مولانا کی سیاسی زندگی ، آزادی کی جدو جہد اور اس سلسلہ میں اپنے ہم وطنوں کے شانہ سے شانہ ملا کر مجاہدانہ حرکت و عمل سے شاکی رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مولانا نے دین کی اصل حقیقت کو پس پشت ڈال دیا تھا اور وطن پرستانہ زندگی میں کھوکر رہ گئے تھے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو صرف مولانا کے اسی سیاسی پہلو کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ متحدہ قومیت کی تعمیر ہی ان کی زندگی کا اصل مقصد و منشا تھا ، یہ دونوں ہی باتیں مولانا کے بارے میں دو انتہائی ہیں اور اس طرح سوچنا مولانا کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے ،حالانکہ مولانا مرحوم کا فکر و عمل اور ان کا کردار ان دونوں انتہا داں سے علیحدہ تھا وہ دین وسیاست کے جامع تھے، اور انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ایک اچھا مسلمان ہی ایک اچھا ہندوستانی بن سکتا ہے اور رہ سکتا ہے ۔ مناسب ہے کہ اس موقع پر مولانا کے خطبۂ صدارت کا ایک ٹکڑا پیش نظر رہے، جو انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کے موقع پر رام گڑھ 1941ء میں فرمائے تھے:
’’ میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کر تا ہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کے تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں ۔ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور برداشت نہیں کر سکتاکہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتاہے، میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر حامل فیکٹرہوں ، میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔‘‘
مولانا آزاد کی تحریک دعوت و عزیمت کا جو غلغلہ 1912ء میں الہلال سے شروع ہوا تھا ،و ہ آخر تک جاری رہا اور مولانا کے مسلک و موقف میں کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ برابر ایک ہی بات کہتے رہے کہ اچھے مسلمان بنواور اچھے ہندوستانی رہو، دنیا کی ساری عظمتیں تمہارے قدموں پر ہوں گی ۔ یہاں تک کہ تقسیم ہند کے نتائج میں47ء کا الم ناک حادثہ بھی ہندوستان کی بد قسمت سرزمین کو دیکھنا پڑا۔ ایسے نازک وقت میں بھی مولانا نے مسلمانوں کو جس حقیقت کی طرف نشان دہی کی وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے سچ تو یہ ہے کہ شاہجہانی مسجد کی یہ تقریر مولانا کے فکر وعمل کی ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جس پر چل کر آج بھی مسلمان کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ اس تقریرکے کچھ حصّے پیش خدمت ہیں، جو خطابت اور ادب و انشاء کی بھی شاہکار ہے اور ایک مرد مومن کے دل کی آواز بھی:
’’یہ دیکھو مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے ؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔
عزیزو! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جا تھا اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بھی بے جا ہے مسلمان اور بزدل یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے،سچے مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلاسکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے، چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہوجانے سے ڈرو نہیں، انہوں نے تمہیں جانے ہی کے لئے اکٹھا کیا تھا، آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو یہ عیب کی بات نہیں، یہ دیکھو کہ تمہارے دل تو ان کے ساتھ رخصت نہیں ہوگئے۔ اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو ان کو اپنے اس خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے تیرہ سو سال قبل عرب کے ایک امی کی معرفت فرمایا تھا: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوُ ارَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْ افَلاَ خَوْفْٗ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَخْزَنُوْنَ (جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے تو پھر ان کے لئے نہ تو کسی کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم)
ہوائیں آتی ہیں اور گذر جاتی ہیں یہ صر صر سہی لیکن ا س کی عمر کچھ زیادہ نہیں، ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلا کا یہ موسم گذرنے والا ہے، یوں بدل جاؤ جیسے پہلے تم کبھی اس حالت میں نہ تھے۔۔۔
آج زلزلوں سے ڈرتے ہو کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے، آج اندھیرے سے کانپتے ہو کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود خود ایک اجالا تھا، یہ بادلوں کے پانی کا سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائچے چڑھالئے ہیں وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا ،بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرا دیے، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا، آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ہے، یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اس درجہ غافل ہو گئے ہیں جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔
عزیزو! میرے پاس تمہارے لئے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے چودہ سو برس پہلے کا پرانا نسخہ ہے، وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا اور وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان: وَلاَ تَھِنُوْ اوَ لاَ تَحْزَ نُوْا وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتْم مُؤْ مِنِیْنَ)‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام کی حیثیت ایک تاریخ ساز شخصیت کی تھی، انہوں نے ’الہلال‘، و ’البلاغ‘ کے ذریعہ مسلمانان ہند کو دعوت و عزیمت کی راہ دکھلائی۔ مولانا، آزادی و حق پرستی کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے، الہلال اس دعوت کا وسیلہ تھا، اس کے ذریعہ مولانا نے اس قوم کو جگانے کا فرض انجام دیا جسے استعماری تسلط نے محو خواب کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتی تھی کہ وہ سلطنت برطانیہ جس کی حکومت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا، اس کا آفتابِ اقبال بھی کبھی غروب نہ ہوگا، لیکن ’الہلال‘ کی دعوت اور اس کے پیغام نے مردہ دلوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ بوڑھے، جوان، جدیدتعلیم یافتہ قدیم علماء غرض ملت کے ہر ہی طبقہ میں بیداری پیدا ہوئی اور یہ ایک واقعہ ہے کہ بعد کی ساری بیداریاں مولانا ہی کے اس قلم کا نتیجہ تھیں، جس کے قلم سے موتی بھی برستے تھے اور بجلیاں بھی گرتی تھیں، جو باطل کو جلاتی اور سچ کو روشن کرتی تھیں۔ الہلال کے بعد حقیقت یہ ہے کہ وہ زبان بند ہوگئی، وہ قلم ٹوٹ گیا لیکن اس کی روشن مثال باقی ہے ،وہ مقصد باقی ہے، وہ دعوت باقی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس مثال اور دعوت سے گرمی بھی لیں اور روشنی بھی، اپنی زندگی کی تاریک راہوں کو اسی سے روشن و تابناک بنائیں۔ آج بھی ہم جب الہلال کے فائل پڑھتے ہیں تو اپنے اندرو ہی گرمی بھی پاتے ہیں اور وہی روشنی بھی، جو الہلال کے صفحات کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ الہلال کے بعد جب مولانا نے ’البلاغ‘ جاری کیا تو اس کا نصب العین بھی وہی دعوت و عزیمت اور اقامت دین تھا جو’ الہلال‘ کا! لیکن طریق ابلاغ کچھ مختلف تھا، تیور وہی تھے، انداز بدلا ہوا۔ ’الہلال‘ حرکت و عمل، جوش و ولولہ کا پیام رساں تھا اور ’البلاغ‘ فکر و بصیرت اور روحانی عزم و ثبات کا۔ ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ میں مولانا ابوالکلام کی دینی و علمی مقالات کا جو فاضلانہ لب و لہجہ، سیاسی مضامین کا مجاہدانہ و قائدانہ انداز، مذہبی افکار کا حکیمانہ اسلوب اور اس کے ساتھ اس کی خطیبانہ بلند آہنگی، عسکرانہ رجز خوانی، مرد مومن کا اذعان و یقین ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کی مثال پیش کرنے سے اردو صفحات کی تاریخ عاجز ہے، جب ہم انھیں پڑھتے ہیں تو اس سے ہم کو ایک نیا ولولۂ حیات ایک نیا جوش زندگی حاصل ہوتا ہے اور یہی مولانا کے قلم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے فکر رسا اور زور قلم کے نتیجہ میںآسمان علم و ادب پر یوں تو چند روشن ستارے نمایاں ہیں اور سب کی تابش نظر کو خیرہ کرنے والی ہے لیکن مستقل تصنیف کی حیثیت سے قرآن مجید کی تفسیرترجمان القرآن ،مولانا کی تمام تحریروں میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔اور آسمان علم و ادب پرستاروں کے جھرمٹ میں ماہ کامل کی طرح روشن اور تابناک ہے۔اس میں مولانا کے قلم کی توانائی،قوت استدلال،اجتہاد فکر،وسعت نظر،قرآنی فکر نمایاں نظر آتی ہے اوریہ وہ خصوصیات ہیں جن میں مولانامنفردحیثیت کے مالک ہیں۔بات یہ ہے کہ انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا ایک ایسا دور ہے جس میں عالم اسلام نے ذہنی و فکری طور پر ایک نئی کروٹ لی ہے،اس کے اسباب سیاسی بھی ہیں اور علمی بھی،دنیا کے عام تمدنی حالات بھی ہیں اور علم جدیدہ کا ارتقا بھی۔یہ اسی دورکا نتیجہ تھا کے عالم اسلام میں جمال الدین افغانی،مفتی محمدعبدہ اور علامہ رشید رضا پیدا ہوئے اور اسی دور میں ہندوستان میں سرسید،شبلی اور ابوالکلام کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی ۔سرسید کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کی بیداری میں نقش اول کی حیثیت رکھتی ہے لیکن سرسید کے ذہن میں مشرق و مغرب کی وہ جامعیت نہ تھی ،جو شبلی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مسائل میں سرسید سے لغزشیں بھی ہوئیں،مولانا آزاد جہاں سرسید کی فکر روشن کے مداح تھے وہیں ان کے بعض خیالات کے ناقد بھی تھے، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کی نئی نسل کے ذہن پر سرسید سے زیادہ شبلی کا اثر تھا،فکر شبلی سے دو متوازی لہریں اٹھیں ایک ابو الکلام کا ’’الہلال‘‘ تھا دوسرے شاعر مشرق اقبالؔ کا پیام مشرق!یعنی دو عظیم شخصیتوں نے اپنے دائرہ عمل میں ملت اسلامیہ کے جدید اذہان پرغیر معمولی اثر ڈالا،اقبال و ابو الکلام کے فکری لہروں سے ایک تیسری لہر پیدا ہوئی،جس نے عالم اسلام میں تجدید و انقلاب کی نئی داغ بیل ڈالی، میری مراد سید ابو ا لاعلیٰ مودودی سے ہے۔ مولانا مودودی کی سحر آفریں شخصیت آج سارے عالم اسلام میں تحریک اسلامی اور انقلاب اسلامی کی علامت(symbol)بن گئی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص سیدرشید رضا کی تفسیر’ المنار‘ ، مولانا ابو الکلام کا ترجمان القرآن اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ایک ساتھ مطالعہ کرے تو اسے ایک ہم آہنگ ذہنی ارتقا اور فہم قرآن کا ایک فکری تسلسل نظر آئے گا اور ایسا صاف محسوس ہوگا کہ ایک ہی سانچہ میں ڈھلے ہوئے مختلف ذہن، مختلف زبان اور انداز بیان میں اظہار مطالب کر رہے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر القرآن کا جب ذکر آگیا ہے تو اس سلسلہ کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کردینا بھی بہتر ہے، ترجمان القرآن کی جب پہلی جلد منظر عام پر آئی تو اس میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر مولانا کے فکر و نظر کی ایک ایسی شاہ کار تھی جس کی مثال اردو تو کیا عربی تفاسیر میں بھی نہیں ملے گی، اس کے پڑھنے سے کچھ ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ مولانا نجات اخروی کے لئے صرف ایمان با اللہ اور عمل صالح کو کافی سمجھتے ہیں ، ایمان بالرسالت،نجات کے لئے ان کے نزدیک ضروری نہیں مولانا کی تفسیر کے اس رخ سے اپنوں کو شکایت ہوئی، غیروں نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر عوام میں مولانا کو بے دین و بے عقیدہ قرار دیا۔حالانکہ یہ بات ہی سرے سے غلط تھی۔ سورہ فاتحہ کی تفسیر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مولانا ایمان با لرسل کے قائل نہیں ،ایک مسلمان کے بنیادی عقیدہ سے نا واقفیت کی دلیل ہے، مولانا نے بہت ہی صاف اور صریح لفظوں میں اس غلط فہمی کی تردید کی ہے۔ اور اس سلسلہ میں مولانا مرحوم کے وہ خطوط’’ قول فیصل ‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں ہماری ریاست بہار کے مشہور قومی و ملی رہنما جناب قاضی احمد حسین مرحوم نے ’’میرا عقیدہ‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کے قرآنی فکر و زہن کا سب سے بڑا ثبوت خود مولانا کا ادب و انشا بھی ہے،مولانا کا ادبی اسلوب وہی ہے،جسے ہم قرآن کا ادبی اسلوب کہہ سکتے ہیں،یعنی حکیمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطیبانہ اور معجزانہ بھی !قرآن کا ادبی اسلوب یہ ہے کہ ایک طرف وہ فکر و نظر اور عقل و دانش کو اپیل کرتا ہے تو دوسری طرف اس میں جذبہ کا ابھار اور جوش کا اظہار ہوتا ہے مولانا کا یہ ادبی اسلوب اور انداز بیان تقریبا ان کی تمام ہی تحریروں میں نمایاں ہے بلکہ ان کے ادبی اسلوب کی اصل خوبی بھی یہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معجز نمااسلوب کے موجد اور خاتم دونوں ہی ہیں۔
فکر ابو الکلام کے سلسلہ میں دور متو سطین کے علماء علامہ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کا ذکر نہ کرنا ،مولانا کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، سچ تو یہ ہے کہ مولانا آزاد،علامہ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ سے کافی متاثر تھے۔ مولانا کی قرآنی بصیرت، دینی دعوت اور ایمانی قوت میں ابن تیمیہ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ کے فکر کی پرچھائیں نظر آتی ہے۔مولانا آزاد کا زور بیان،حسن انشا اور قدرت کلام کا کمال یہ ہے کہ ہر فکر خواہ وہ کہیں سے لی گئی ہو،اُن کی اپنی فکر بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت ایک عہد آفریں شخصیت تھی اور جب ہم فکر ابوالکلام کا جائزہ الہلال و البلاغ کے فائل ، تذکرہ کے اوراق اور ترجمان القرآن کے صفحات میں لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
ز فرق تا با قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں