بیادگار تاج العرفان حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ و حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ؞؞؞؞؞؞خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کی مطبوعات کے آن لائن ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ آئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞

اتوار، 5 اپریل، 2015

نمی دانم چہ منزل

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

از:ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

نمی دانم چہ منزل بود،  شب جائے  کہ  من   بودم 
بہ ہر سُو     رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
(مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔)

پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے 
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم
(پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔ )

رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں 
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم 
(رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔ )

خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو 
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
(اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد صلی الله و علیہ وسلم اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔ )



0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں