بیادگار تاج العرفان حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ و حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ؞؞؞؞؞؞خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کی مطبوعات کے آن لائن ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ آئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞

ہفتہ، 4 اپریل، 2015

الکلم طیب

آج سے آئینہ مولانا طیب عثمانی ندوی کی کتاب  شخصیات سے ماخوذ ایک کالم پیش کررہا ہے جس میں ہماری ملت کی ان شخصیات کا ذکر ہےجن سے ہماری نئی نسل کو واقف کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جن کی نگاہوں کے تیر آج بھی دلنشیں اور اس امت کے نوجوانوں کے لئے نشان راہ ہیں۔


شخصیات

جن کی نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں
   پہلی جنگ آزادی جو مغل دور کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی۔اس کی ناکامی کے بعد بر صغیر ہند میں امت مسلمہ نت نئے تہلکوں اور آزمائشوں سے گذری لیکن یہی وہ دور تھا کہ اس امت میں چند ایسے بیدار مغز،نگہ بلند،سخن دلنواز ،جاں پر سوزشخصیتیں اور میر کارواں پیدا ہوئے،جنہوں نے اس شکست خوردہ ملت کو ،اپنی بصیرت اور فکر و عمل سے تابناک مستقبل کی بشارت دی اور جب یہ ملک انگریزوں کی غلامی میں پوری طرح جکڑ گیا تو ہمارے ان بزرگوں نے آزادی فکر وعمل اور مستقبل میں ترقی کا نسخہ کیمیا ’’تعلیم‘‘ کو قرار دیا۔اس وقت دیوبند کے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ علی گڑھ کے سرسید احمد خاں اور اعظم گڑھ کے علامہ شبلی نعماؒ نی نمایاں شخصیات تھیں جن کے فکر و عمل نے اس ملت کے لئے دینی و دنیاوی لائحہ عمل اور راہیں روشن کیں۔ان میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دیوبند میں دینی تعلیم اور دینی تشخص کا نیا نظام قائم کرکے پورے ملک میں دینی تعلیم کا ایک جال بچھا دیا۔لیکن ساتھ ہی سرسید احمد خاں نے مستقبل میں مسلمانوں کے لئے جدید مغربی تعلیم کا نظم کیاتاکہ یہ ملت ملک کی ترقی کی دوڑ میں اپنے ہم وطنوں سے پیچھے نہ رہ جائے اور واقعہ یہ ہے کہ عصری اور سائنسی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا قیام سرسید کا ایک بڑا علمی وتعلیمی کارنامہ تھا۔ تعلیم کے جدید و قدیم ان دو دھاروں کے درمیان،علامہ شبلی نعمانی نے محسوس کیا کہ تعلیم کی یہ دو انتہائیں اس ملت کو فکر و عمل کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کر دیں گی،اس خلیج کو پاٹنے کے لئے ایک نئے نظام تعلیم کی ترویج و اشاعت کا بیڑہ اٹھایا اور دارلعلوم ندوۃالعلماء لکھنوکا قیام عمل میں آیا ،جو دینی تعلیم اور عصری علوم کا سنگم بنا تاکہ وہاں سے وسیع انظر اور روشن خیال اہل دین اور اہل علم پیدا ہوں ۔اس حقیقت کا اظہار حضرت اکبر الہ آبادی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے۔
ہے دل روشن مثال دیوبند اور ندوہ ہے زبان ہوشمند
چونکہ اکبرؔ جدید مغربی تعلیم و تہذیب کے شدید مخالف تھے اس لئے اسی قطعہ میں علی گڑھ کو’’ فقط پیٹ ‘‘کہہ کرمغربی تہذیب کا مذاق اڑایا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کی یہ تینوں شخصیتیں جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے ان کے تعلیمی اداروں نے جیسی شخصیتیں پیدا کی ہیں وہ اس ملت کا ناقابل فراموش سرمایہ ہیں۔دیوبند سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا شبیر احمد عثمانی،مولانا عبید اللہ سندھی یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے اس ملک میں دینی تشخص کے ساتھ جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا،جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا،انہی کو اکبر الہ آبادی نے ’’دلِ روشن‘‘سے تعبیر کیا ہے اور ندوہ سے علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا عبد السلام ندوی،مولانا سید ابوالحسن علی ندوی جیسے با کمال،وسیع النظر،روشن دماغ،اہل علم و ادب پیدا ہوئے جن کو اکبرؔ نے ’’زبان ہوشمند‘‘کہا ہے۔اکبرؔ مغربی تہذیب کے ناقد ضرور تھے لیکن وہ سرسید کے جدید عصری علوم کی تعلیم کے مخالف نہ تھے۔یہی وجہ تھی کہ خود اکبر کے صاحبزادے اور اس دور کے تمام سر بر آوردہ حضرات جنہوں نے دین و ملت کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں سب علی گڑھ کی پیداوار ہیں۔ مولانا محمد علی جوہرؔ ،مولانا شوکت علی،ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ کے علاوہ سائنس اور سوشل سائنس کے ماہرین،جن کے فکر و عمل نے زندگی کے ہر شعبے میں اس ملت کو نئی روشنی،نیا جوش و ولولہ عطا کیا اور جدید علوم و سائنس کے ساتھ ملک کے انتظامی امور میں اہل وطن کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔
مختصر یہ کہ ہماری ملت کی یہ شخصیات اس لائق ہیں کہ ہماری نئی نسل ان سے واقف ہوں۔واقعہ یہ ہے کہ جن کی نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں اور اس امت کے نوجوانوں کے لئے نشان راہ ہیں۔میں نے اپنی اس کتاب میں صرف ان شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے دینی و علمی کارناموں سے میں براہ راست واقف ہوا اور جن کے فیضان سے میں خود مستفیض ہوا ،جن کے ساتھ میری زندگی کے شب و روز گذرے ہیں جو دعوت دین کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل تھے۔ان کے بارے میں یہ تمام مضامین میرے ذاتی تعلقات و تاثرات پر مبنی ہیں۔ یہ وہ شخصیات ہیں جن کے فکر و دانش اور اخلاص و عمل سے ہماری نئی نسل ہمیشہ فیضان حاصل کرتی رہے گی اور یہ سب ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔اس کتاب کا اصل مقصود و مطلوب اپنے نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ ان کے نقش قدم پر چل کرمستقبل میں اس ملک و ملت پران کی طرح اپنی چھاپ چھوڑ سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس حقیر کوشش کو شرف قبولیت بخشے اور ہمارے لئے اجر آخرت کا باعث ہو،وما توفیقی الا با اللہ۔



طیب عثمانی
  بیت الرشاد،شانتی باغ،نیا کریم گنج ،گیا

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں