کیا وقت تھا کیا لوگ تھے۔1
سملہ کی کہانی میری زبانی
ابن طاہر
سملہ،چہار جانب چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے گھری ،کچے پکّے مکانات پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی دور سے ہی لوگوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ریلوے لائن سے ۸ کلو میٹر دور جنوب اور شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ سے ۱۵ کلو میٹر دور بسی اس بستی تک پہنچنا آج بھی اتنا آسان نہیں ۔یہاں زمانہ قدیم سے ایک عثمانی خانوادہ آباد ہے۔یہ اہل دل کی بستی ہے۔بستی کے آغاز میں ہی ایک مسجد ہے جہاں سے پانچوں وقت اللہ کی وحدانیت کی صدا بلند ہوتی ہے۔اس سے ملحق مدرسہ اور خانقاہ ہے جس کی فضائیں قران مجید کی تلاوت سے گونجتی رہتی ہیں۔خانقاہ میں عمارت کے نام پر ایک چھوٹا سا حجرہ ہے جس کی دیوار کبھی مٹی کی تھی اور چھپر کھپڑہ پوش تھی۔برسات کے دنوں میں اس میں پانی کا ٹپکنا عام تھا۔اندر ستلی سے بنا ایک چھوٹا سا کھٹولہ جس میں پیر سیدھا کرنے کی بھی گنجائش نہیں تھی ایک جانب رکھا تھا۔حجرے کی زمین سجدوں سے منور تھی۔اندر داخل ہونے پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی اور ہی دنیا میں قدم رکھ دیا ہو۔سکون و طمانیت کے ساتھ دل پر ایک عجیب سی ہیبت طاری ہوتی اور وہ بے ساختہ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کو بے قرار نظر آتا۔زبان پر بے ساختہ درود جاری ہوجاتا اور ایسا لگتا یہ جگہ صرف اپنے رب کی بندگی اور اس کے محبوب ﷺپر صلوٰاۃ و سلام کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔اس حجرے کے مکینوں نے نہ جانے کتنی راتیں اپنے رب کی باگاہ میں گریہ و زاری میں گزاری تھیں۔ان کی شب بیداری اور ان کی آہ سحر گاہی سے اس حجرے کا ذرہ ذرہ منور معلوم ہوتا۔
قطب العصر حضرت شاہ محمد علی فردوسی کا یہ حجرہ ان کے بعد کے بزرگوں کے لئے بھی اپنے رب کی بارگاہ میں حضوری کی جائے خاص بنا رہا۔حضرت شاہ ابو الحسن شہید ؒ کو تو یہ مقام اتنا ہی پسند تھا کہ آپ نے اس حجرے کے صحن میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔صحن میں مسجد کی منڈیر کے گر جانے سے آپ نے یہیں پر جام شہادت نوش فرمایا۔اس وقت اس مقام پر ٹائلس کی مدد سے جائے نماز بنا دی گئی ہے جہاں طالبان حق دوگانہ نماز ادا کرکے اپنے لیے توشۂ آخرت بٹورتے ہیں۔مٹی کے اس قدیم حجرے کی جگے اب نیا پختہ حجرہ تعمیر کر دیا گیا ہے۔ساتھ ہی مسجد سے ملحق خانقاہ کا نیا سماع خانہ بھی تعمیر ہوچکا ہے۔مسجد،حجرہ اور سماع حانہ ،ایک ایسا مثلث بن چکا ہے جہاں آج بھی تشنگان محبت کو ایمان و یقین کی پختگی ملتی ہے اور بزرگوں کا فیض اسی طرح جاری و ساری ہے۔
کبھی جب یہاں مٹی کا حجرہ ہوا کرتا تھارجب المرجب کے سالانہ عرس کے موقع پرحجرے کے سامنے سماع خانے کے لئے لوہے کے رڈ نصب کیے جاتے تھے جن کی مدد سے شامیانہ لگایا جاتا تھا۔عرس کے زمانے میں سملہ بستی کی رونق ہی عجیب ہوتی ۔رجب کا چاند نظر آتے ہی خانقاہ میں مریدین و متوسلین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔پیر تو پیر مرید بھی ایسے کے آج کے زمانے کے جبہ و دستار سے لیس مزاروں کے کاسہ بردار ان کے سامنے پانی بھریں۔مریدین میں آپس میں ایسی محبت و الفت کے ایک دوسرے کے لئے جان دینے کو تیار۔پیر پر تو ہر وقت جاں نثار کرنے کے لئے بے قرار۔چہرے ایمان و یقین کی ایسی دولت سے سرشار کے اچھے اچھے اس پر رشک کریں۔نہ جبہ نہ دستار لیکن چہرے پر نور کی ایسی بہارکہ پیر بھی اپنے مریدوں کو دیکھ کر فرط مسرت سے سر شار۔غرض یکم رجب سے ۵رجب تک اہل دل کے آنے کا سلسلہ جاری رہتا اور روز بروز آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا مسجد اور حجرے کا صحن قران اور درود و سلام کی آوازوں سے گونجتا رہتا۔ہر جانب نور کی برسات ہوتی نظر آتی۔مسجد سے ملحق پچھم جانب صاحب سجادہ حضرت والد ماجد حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ کا ذاتی مکان آنے والوں کا سب سے پہلے استقبال کرتا۔کھپرے کی چھپر والے اس مکان کے اوسارے میں صاحب سجادہ اپنی چارپائی پر بیٹھے اپنے مریدوں کا استقبال کرتے۔ہر آنے والا مرید اس بے قراری سے آکر ملتا جیسے پیاسے کو سمندر مل گیا ہویا چھوٹی چھوٹی ندیاں اس سمندر میں ضم ہو جانے کو بے قرار ہوں ۔
(جاری)
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں